مراعات یافتہ بھیڑئیے
ہم سب عظیم چیخوف کی کہانیوں، افسانوں اور ڈراموں کے کردار ہیں، بس ہمارے نام مختلف ہیں لیکن ہمارے حالات و واقعات، ہماری زندگیاں، ہمارے اردگرد کا ماحول سب چیخوف نے اپنی کہانیوں، افسانوں اور ڈراموں میں بیان کیے ہوئے ہیں۔
لگتا ہے وہ بھیس بدل بدل کر رات کو ازبکستان سے ہوتا ہوا پاکستان کی ان بستیوں میں آن نکلتا تھا جہاں شبانہ، پاکیزہ، یا مہرو کی ناکام محبتیں سسکتی، دم توڑتی ہیں، جہاں مائی جیراں اور ماسی برکتے غربت کی لکیر سے نیچے آکر زندگی گزار رہی ہیں، جہاں دس فیصد مراعات یافتہ طبقہ نوے فیصد کیڑے مکوڑوں پر حکمرانی کر رہا ہے، جہاں فاقوں، غربت، مہنگائی سے تنگ آکر لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں، جہاں اخلاقیات کو مرے عرصہ بیت چکا ہے جہاں گھرگھر ماتم برپا ہے۔
جہاں انسانوں کو روز ذلیل وخوار کیا جا رہا ہے وہ پاکستان کے مجسٹریٹوں، سرکاری بڑے افسران، پٹواریوں، تاجروں اور سنتریوں سے ملتا تھا، اسلام آباد میں بیٹھی بیوروکریسی، انتہائی طاقتور اور با اختیاروں، وکلا، کلرکوں کی زندگی کو دیکھتا تھا، پھر وہ رات کے اندھیرے میں واپس ماسکو چلا جاتا تھا اور ان ناموں کو یولیا ولینی لیونا، ایلویرا، پاولوچ، بروگدیف، واینا اور ویریا کے ناموں سے بدل کر روسی زبان میں کہانیاں، افسانے اور ڈرامے لکھتا تھا۔
ارسطو نے یونانی ڈرامہ نویس یوری پیڈیزکے بارے میں کہا تھا کہ یوری پیڈیز زندگی کو ایسا دکھاتا ہے جیسی وہ ہے وہ اسے نہیں دکھاتا جیسی اسے ہونا چاہیے۔ چیخوف بھی اپنی کہانیوں، افسانوں اور ڈراموں میں یہ ہی انداز اختیارکرتا ہے وہ کرداروں میں اور واقعات میں چھپا وہ سچ ڈھونڈ نکالتا ہے جو شاید کسی دوسرے ادیب کے بس کی بات نہیں۔
اس کی کہانی وارڈ نمبر 6 پڑھ کر عظیم لینن نے اپنی بہن کو خط لکھا تھا " کل شام جب میں نے یہ کہانی پڑھ کر ختم کی تو میرا دم اس قدرگھٹنے لگا کہ میں اپنے کمرے میں نہیں ٹہرسکا بے اختیار اٹھا اور باہر نکل گیا، یوں محسوس ہو رہا تھا گویا میں خود وارڈ نمبر6 میں مقفل کردیا گیا ہوں۔" میکسم گورگی نے جب "چچا واینا " دیکھا تو چیخوف کو خط لکھا " ابھی چند دن پہلے میں نے آپ کا ڈرامہ "چچا واینا " دیکھا میں کوئی کمزور دل آدمی نہیں مگر عورتوں کی طر ح رو پڑا۔" عظیم دوستویفسکی کے ناول "جرم و سزا " میں ایک کردارکہتا ہے " اس سماج میں دو طرح کے نپولین رہتے ہیں۔ پہلی قسم وہ نپولین ہیں جن کے پاس اختیارات اور طاقت ہے وہ سماج میں سپرمین کا درجہ رکھتے ہیں اپنے قوانین بناتے ہیں۔ دوسری قسم کے نپولین کے پاس نہ طاقت ہے نہ قانون نہ پیسہ چنانچہ وہ چوری کرتا ہے قتل کرتا ہے۔"
گو گول عظیم ناول نگار جس نے ساری دنیا کے لکھنے والوں کو متاثرکیا۔ وہ کہتا ہے کہ ایک بار پشکن نے مجھے کہا کہ میں ایک ناول لکھنا چاہتا ہوں لیکن میرے پاس وقت نہیں تم اس پر ایک ناول لکھو اور پھر ناول کا بنیادی خاکہ گوگول کے سامنے رکھ دیا اس ناول پرگوگول نے محنت کی اور جب اس ناول کا ایک حصہ وہ پشکن کے سامنے لے کر گیا تو پشکن نے ناول پڑھ کر اداس لہجے میں کہا " افسوس میرا روس کتنا اداس ملک ہے " آج جب ہم اپنے چاروں طرف دیکھتے ہیں کہ لوگ کس طرح مسائل میں پوری طرح دھنسے ہوئے ہیں اور صرف ان کا چہرہ باہر ہے تو بے اختیار منہ سے نکل جاتا ہے کہ " افسوس میرا پاکستان کتنا اداس ملک ہے۔"
جہاں لوگ اپنی سانسیں تک اذیت میں لے رہے ہیں جہاں صرف دس فیصد انسان زندگی کی تمام لذتوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں اور باقی نوے فیصد اپنی سانسیں برقرار رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں ان دس فیصد انسانوں نے دنیا بھرکی تمام غلاظتیں، ذلتیں، وحشتیں نوے فیصد انسانوں میں بھردی ہیں۔ جرمن نوبیل انعام یافتہ ادیب ھرمن ھیسے نے 1927میں اپنا مشہور ناول Stephen Wolf لکھا تھا۔ یہ ناول ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس کی ذات حیوان اور انسان کے درمیان کشمکش کی آماج گاہ بن گئی ہے ایک طرف وہ ایسی زندگی بسر کرنا چاہتا ہے جو سماج کے لیے قابل قبول ہو جب کہ اس کی حیوانی جبلت اسے دوسری طرف لے جاتی ہے۔ ہمارے سماج کے یہ دس فیصد مراعات یافتہ دراصل ھرمن ھیسے کے ناول کے کردار ہیں جو اپنی حیوانی جبلت کے ہاتھوں یرغمال بن کر بھیڑیے بن چکے ہیں۔
وہ بھیڑیے جو اپنے علاوہ کسی اور کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اپنے علاوہ کسی اورکو خوش دیکھ کر خوشحال دیکھ کر، پرسکون دیکھ کر ان کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے انھوں نے جو بربادی اور وحشت ہمارے سماج میں پھیلائی ہے دنیا میں اس کی مثال ملنا ممکن نہیں۔
آپ اگر انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کی ملاقات تین قسم کے مختلف سوچنے والے انسانوں سے ہوجائے گی اور یہ تین قسم کی سوچ رکھنے والے انسان آپ کو ہر ادوار میں نظر آئیں گے۔ (1) دل سے (2) دماغ سے (3) پیٹ سے سوچنے والے انسان۔ ہم اگر دل سے سوچنے والوں کو تلاش کریں تو ہماری ملاقات سقراط، بدھا، اشوک، افلاطون، ہومر، اسکالی لس، سو فیکلز، یوری پیڈیز، پلوٹارک، لانجائی نس، بلائی ٹس، ورجل، ہوریس، دانتے، شیکسپئیر، بائرن، شیلے، والیٹر، روسو، جان کیٹس، کولرج، وکٹر ہیوگو، موپساں، سارتر، گوئٹے، سسرو اور دیگر سے ہوتی ہے-
اس کے بعد ہم اگر دماغ سے سوچنے والوں کو ڈھونڈیں تو ہماری ملاقات ایڈیسن، آئن اسٹائن، فیثا غورث، کنفیوشس، تھالیس آف ملیس، ہیرا ملیطس، پارمی نائیڈس، فرانسس بیکن، ڈیکارٹ، پاسکل، جارج برکلے، میکیا ولی، تھامس ہابس، ہیوم، کارل مارکس، نطشے، شو پنہار اور دیگر سے خود بخود ہوجاتی ہے۔
اب انسانی تاریخ کے گناہ گاروں، اسے شرمسارکرنے والوں پیٹ سے سوچنے والوں پر بات کرتے ہیں۔ اسی فہرست میں جھانکتے ہی ایک صحت مند انسان خوف اور دہشت سے کانپنے لگتا ہے اس لیے کہ اس فہرست میں شامل انسان اپنے جرائم اور گناہوں میں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں آپ کسی ایک پر اپنی تمام لعنتیں بھیج کر جب آگے بڑھتے ہیں تو دوسرے پر اس سے زیادہ لعنتیں بھیجنے پر بے اختیار مجبور ہو جاتے ہیں اس فہرست میں آپ کو پاکستان کی اشرافیہ کے افراد سب سے زیادہ ملیں گے، جو اقتدار، اختیار، عیش و عشرت اور روپوں پیسوں کی خاطرکسی بھی حد تک گرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں ایسے تمام افراد اصل میں ہمارے تمام دکھوں کے باپ ہیں -
جب حضرت عیسیٰ کو صلیب دی جا رہی تھی تو اس وقت انھوں نے ایک ایسی بات کہی تھی جو تاریخ انسانی میں دکھ برداشت کرنے والوں کی جانب سے کہی جانے والی پختہ باتوں میں سے ایک ہے جب انھیں ایذا دینے والے ظلم در ظلم کرتے ہوئے انھیں ضرورت سے زیادہ تکلیف دینے کی کوشش کررہے تھے تو اس وقت حضرت عیسیٰ نے دعا کی تھی " اے خدا انھیں معاف کردے کہ یہ نہیں جانتے یہ کیا کررہے ہیں " بالکل یہی حال ہمارے دس فیصد طبقے کا بھی ہے جو ظلم کر رہے ہیں۔