اقتدار کی دیوار
عید سے دو روز قبل کراچی میں پی آئی اے کے طیارے کی ہولناک تباہی کی وجہ سے عید سادگی سے منائی گئی اور یوم تکبیر کی تقریبات بھی منعقد نہ کی جا سکیں۔
پی آئی اے طیارے حادثہ میں جانی نقصان پر پورا ملک سوگوار ہے، شناخت کا عمل مکمل نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک تما م مسافروں کی میتیں ان کے لواحقین کے حوالے نہیں کی جا سکیں۔ مجھے یہ تو علم ہے کہ قوم نے عید الفطر اس ہولناک سانحہ کی وجہ سے سادگی سے منائی لیکن قومی حادثہ کے موقع پر قوم حکومت کی جانب سے جس ردعمل کی توقع کر رہی تھی وہ سامنے نہیں آیا۔
وزیر اعظم عمران خان کراچی کا دورہ اور حادثے میں شہید ہونے والوں کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کے بجائے عید کی چھٹیوں میں سکون تلاش کرنے کے لیے مری کی ٹھنڈی فضائوں میں پہنچ گئے جب کراچی میں طیارے میں بھڑکنے والی آگ کے شعلوں کی تپش ابھی باقی تھی۔ بہر حال ہر حکمران کا اپنا ایک الگ مزاج ہوتا ہے اور اس عمر میں مزاج بدل نہیں سکتا۔
ملک مشکل حالت سے گزر رہا ہے۔ پہلے تو ہم کشمیر میں مصروف رہے لیکن اپنے مزاج کے مطابق ہم نے بہت جلد کشمیر کو بھلا دیا اور کورونا میں مبتلاء ہو گئے جس کے وار ابھی مزید تیز ہو رہے ہیں لیکن حکومت نے یہ حیرت انگیز فیصلہ کیا ہے کہ ملک کو لاک ڈائون سے آزاد کر دیا جائے یعنی جب ضرورت پڑی تو ہم نے لاک ڈائون کھول دیا، یہ بات درست ہے ملک طویل عرصے تک لاک ڈائون کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن کیا حکومت کورونا کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو سنبھال پائے گی۔
ڈاکٹر حضرات جس طرح ڈرا رہے ہیں خدا خیر کرے، کوئی اچھی خبریں سنائی نہیں دے رہیں۔ ایسی قیامتوں کا مقابلہ صرف قومی سطح پر ہی کیا جا سکتا ہے لیکن کیا ہم بطور قوم ان قیامتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں یا صرف اس زعم میں ہی وقت گزار رہے ہیں کہ ایٹم بم جیسے طاقت ہمارے پاس ہے جو ہمارے تحفظ کی ضمانت ہے، یہ زعم کسی حد تک درست ہے لیکن ایٹم بم کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے آپ کو معاشی طور پر بھی اس قابل کرنا ہے تا کہ جو کشکول ہم آئے روز ہاتھوں میں اٹھائے عالمی ساہوکاروں کے دروازوں پر دستک دے رہے ہوتے ہیں اس سے ہماری جان چھوٹ جائے اور جو لوگ ہمیں ایک ناکام ملک کا طعنہ دیتے ہیں ان کو ہم یہ بتا سکیں کہ یہ پاکستانی قوم دنیا کے ترقی یافتہ ملک کی قوموں سے کسی طرح کم نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہم پر کرم کیا ہمارے انفرادی گناہوں اور قومی فروگزاشتوں کے باوجود ہمارے اطمینان کا ایک ذریعہ پیدا کر دیا، ایک مرتی ہوئی قوم کو نئی زندگی بخش دی، ہمارے جھکے ہوئے سروں کو بلند کر دیا، وہ ملک جس کے بد بخت باشندے خود اسے ناکام ملک کہتے تھے اس کامیابی نے ان کے منحوس چہروں پر تمانچہ جڑ دیا۔ آپ نے کبھی اس بات کا تصور بھی نہیں کیا ہو گا کہ جب تک ہم نے دنیا کے سامنے اپنے آپ کوایٹمی طاقت ثابت نہیں کیا، اس وقت تک ہماری حیثیت کیا تھی اور اب ایٹم کے بعد ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہم پر کتنا کرم ہوا، مسلمان ایسے موقعوں پر خدائے بزرگ و برتر کے سامنے سربسجود ہوتے ہیں اور میں نے اس موقعہ پرلوگوں کو سجدے کرتے اور خوشی سے دھاڑیں مار کر روتے بھی دیکھا تھا۔
پاکستان کے قیام کے بعد یہ دوسرا موقع تھا جس نے ہمیں دو راستے دکھائے، ایک راستہ وہ جس پر ہماری حکومتیں چلتی رہیں یعنی طائوس رباب کا راستہ اور دوسرا شمشیر و سناں کا راستہ۔ یہ دفاعی ہتھیار ہمیں شمشیر و سناں کا راستہ دکھاتا ہے۔ لیکن ہم نے اس اہم ہتھیار کے باوجود مصلحتوں کے تحت شمشیر وسناں کا راستہ ترک کر دیا اور اپنے پرانے راستے طائوس و رباب پر ہی چلنے کو ترجیح دی۔ وہ طاقتیں جو ہمارے اسلامی بم سے خوفزدہ تھیں کہ عالم اسلام کا یہ ٹوٹا ہوا تارہ کہیں مہر کامل نہ بن جائے اور ہمارے خلاف منصوبہ بندی کر رہیں تھیں کہ کسی طرح اس اسلامی ریاست کو اس کے ارادوں سے باز رکھا جائے۔ ان کو کسی منصوبہ بندی کی ضرورت نہیں رہی اور ہمارے اندر سے ہی ان کے وکیل پیدا ہو گئے اور حکومتوں کے ان بھوکے پیاسوں نے اپنی قومی حمیت تک دائو پر لگا دی۔
ہماری بد قسمتی ہے کہ جب یہ لیڈر حکومت سے باہر ہوتے ہیں تو ملک دشمن بن جاتے ہیں اور جب حکومت میں ہوتے ہیں تو اپنی مرضی سے ملک کی قسمت کے فیصلے کرتے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار ہمیں بتاتے ہیں کہ سیاستدانوں کی مقامی سیاست انھیں مجبور کرتی ہے کہ اگر ان کا مخالف ایک پارٹی میں ہے تو وہ اس کی مخالف پارٹی میں چلے جائیں اور اسی مقامی سیاست پر ہوشیار مرکزی حکمرانوں کی سیاست چلتی ہے۔ ہمارے جماندرو حکمران لندن میں مقیم ہوں یا امریکا میں یا پاکستان میں ان کی یہ سیاسی جاگیر سلامت رہتی ہے۔
قوم نے ایک نئے جوش و ولولے سے عمران خان کو ووٹ دئے تھے قوم کا خیال تھا کہ وہ ملکی سیاست پر دو خاندانوں کی اجارہ داری ختم کر دیں گے لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ وہ کوئی منجھے ہوئے سیاستدان نہیں ہیں نہ ان کو ایسے ساتھیوں کی مدد حاصل رہی ہے جو ان کوواضح سیاسی کامیابی سے ہمکنار کر سکتے، ایک تو انھوں نے نہ جانے کیوں دو نمبر کے سیاستدان اپنی کابینہ میں شامل کر لیے اور پھر ان کی وجہ سے اپنی پریشانیوں میں اضافہ بھی کر لیا۔ زیادہ تر ساتھی قطعاً مطلب پرست اور محدود مفادات کے حامل ہیں یا پھر سیاسی نا بالغ ہیں جو مسلسل بونگیاں مارتے رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ جو نکلنا تھا وہی نکل رہا ہے۔ لیڈر شپ عوامی توقعات کے مطابق کوئی کرشمہ دکھانے سے قاصر رہی ہے۔
ملک کے بگاڑ کو درست کرنے کی کوئی واضح حکمت عملی ابھی تک سامنے نہیں آ سکی جس سے قوم یہ جان سکے کہ ان کے مستقبل کی سمت کیا متعین کی گئی ہے۔ یہی گو مگو کی کیفیت حکومت کے غیر مقبول ہونے کا پہلا قدم ہوتی ہے اگر یہ قدم مضبوطی سے نہ رکھا جائے تو ڈگمگانے میں دیر نہیں لگتی ابھی بھی وقت اور ساتھ میسر ہے سمت درست کر لیں ورنہ اب تو چھوٹے چھوٹے سیاستدان بھی یوں بات کرتے ہیں جیسے ان کے ایک دھکے سے اقتدار کی دیوار گر جائے گی۔ بات کہاں سے شروع کی تھی کہاں نکل گئی، آج اسی پر گزار کریں۔