Monday, 10 February 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Haram Ul Nasab Tehreer

Haram Ul Nasab Tehreer

حرام النسب تحریر

گھوڑا، کتا اور تحریر تین ایسی غیر انسانی اجناس ہیں جن کا شجرہ نسب انسانوں کے ہاں اہمیت رکھتا ہے، نسلی گھوڑے کی اہمیت تو مسلّم ہے، شوقین تو ایک نظر میں گھوڑے کا شجرہ تاڑ لیتے ہیں، کہیں پڑھا تھا کہ عربوں کو اپنے گھوڑے کی کئی پشتوں تک کے انساب یاد ہوا کرتے تھے۔

کتا خاصا انسانی جانور ہے، چونکہ گھوڑا جنگجو صفت کا جانور اس لئے مسلمانوں کو مرغوب ہے، انسانیت سے ہمارا کیا واسطہ، اس لیئے کتے کو نجس حرام کہہ کر پرے کر دیا، مگر فرنگیوں نے ہر اس چیز کو جھپی ڈالی جس سے مسلمان بدکتے ہیں، سور اور شراب کو ہی دیکھ لیجیے یہی حال کتے کا بھی ہے۔ فرنگیوں کے ہاں بھی کتوں کی بریڈ کا بڑا خیال رکھا جاتا ہے۔

رہ گی تحریر تو تحریر کی ولدیت بھی خاصی ناگزیر ہے، غالب مرزا ہرگوپال تفتہ کے نام ایک مکتوب میں لکھتے ہیں "خدا گواہ ہے کہ میں تمھیں اپنے فرزند کی جگہ سمجھتا ہوں اور تمھارے نتائج طبع میرے معنوی پوتے ہیں"۔

نتائج طبع کے دادا جی مرزا غالب نے تحریر کا پورا شجرہ نسب بنا لیا، وہ غالب کا زمانہ تھا، تحریر کتابوں تک ہی محدود تھی، کتابوں کی مضبوط کاٹھی اور کھردرے اوراق تحریر کی ولدیت کو کتاب سے اچکنے نہیں دیتے تھے، خدا بھلا کرے، آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے، پہلے ادب لکھنؤ کے مشاعروں اور دہلی کے دروازوں میں تخلیق پاتا تھا، نیا ادب کتابوں کے بجائے برقی آلات پر تخلیق پا رہا ہے، اس برقی ادب نے ایک واردات جو کی ہے وہ تحریر کی ولدیت کے ساتھ کی ہے۔

تحریر لکھاری کی بمعنی غالب معنوی فرزند ہوتی ہے، اگر کہیں کسی کی وال پر تحریر ٹنگی بھی جائے تو ساتھ اس کی ولدیت یعنی لکھاری کا نام بھی لکھا جانا چاہیے، منقول لکھ کر ولدیت کو مشکوک کرنا، یہ تو وہ اعوانوں والی بات ہوگی کہ جس کا کو اپنے شجرے کا پتہ نہیں ہوتا وہ ذات کے خانے میں اعوان لکھ دیتا ہے، پہلے وقتوں میں یہ بات سیدوں کے حوالے سے مشہور تھی، نوے فیصد ہندی سید اسی تجاہل انساب کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں، یوپی امروہہ کے گردو نواح کی کہاوت میں نے اپنی ایک تحریر "سید ازم" میں لکھی تھی جو کچھ یوں تھی "پہلے میں جولاہا تھا آج کل شیخ ہوں اگر کل میری فصل نے اناج اچھا اگلا تو سید بھی بن جاؤں گا"۔

یقین مانیئے امروہہ کے جولاہوں کی طرح میری اس تحریر کی ولدیت فیسبک پر بدلی گی، اب ہر کچھ ہفتوں بعد واٹس ایپ میری ہی وہ تحریر نئے نئے ناموں کے ساتھ میرے علم میں اضافے کے لیے مجھے موصول ہوتی ہے، اب دل کر رہا ہے کہ اپنی اس حرام النسب تحریر کو عاق ہی کردوں۔

اب تو جی جلتا ہے یہ دیکھ کر کسی کی محنت سے لکھی تحریر پر سے لکھنے والے کا نام ہٹا کر اپنا نام لکھ دیتے ہیں، جیسے غیر شرعی تعلق سے پیدا ہونے والے بچے کو حرام زادہ کہا جاتا ہے، ایسے ہی غیر تخلیقی تعلق کے بغیر بننے والے صاحب قلم کو لغوی طور پر حرامی لکھاری کہنا چاہیے۔ جو تحریر کے نسب پر اپنا حق جماتے ہیں۔

جب اپنی کئی تحریریں سوشل میڈیا پر بغیر نسب کے دیکھتا ہوں تو سمجھ نہیں آتی کہ تحریر کو حرام النسب کہوں یا جس نے یہ حرکت کی ہے اسے۔

ابن انشاء نے اپنی کتاب خمار گندم میں فیض پر لکھے ایک انشائیے میں ذکر کیا ہے۔ فیض کی بیشتر شاعری ان ہی تخلیق کردہ ہے، جسے فیض نے ان کی ہی اجازت سے اپنے نام کے ساتھ شائع کیا تھا۔ جب فیض کو روس میں لینن ایواڈ ملا تو فیض نے انعام کی آدھی رقم لا کر ابن انشاء کو دی یہ کہہ کر۔۔ "اس ایواڈ پر آدھا حق آپ کا ہے"۔

نہ جانے ابن انشاء نے یہ بات کس موڈ میں لکھی ہو۔

مگر فیض بڑے آدمی تھے، کریڈت نہ بھی دیتے مگر انعام میں حصہ دار ضرور بناتے۔

یہاں پر دونوں ہی چیزیں مقفود ہیں۔

Check Also

Tabdeeli Ab Nahi Aaye Gi

By Saira Kanwal