20 Minute
بیس منٹ
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہماری "ھدایت" کے کور تازہ تازہ اترنے شروع ہوئے تھے، مگر ہم باقاعدگی سے ہفتہ وار دروس میں شرکت کرتے، درس دینے والے حضرت دنیاوی تعلیم سے بھی خاصے آراستہ تھے، اکثر تعلیمی اداروں میں مخلوط نظام تعلیم پر کڑھتے، ہم نوجوانوں پر نظروں کی حفاظت کرنے پر گھنٹہ بھر کی بیانات لاد دیتے۔ نظروں کی حفاظت کی تلقین سے یقین مانیں اس وقت مُجھے لگتا، آنکھیں دو کانوں کے درمیان نہیں بلکہ دو رانوں کے درمیان کوئی چیز ہیں۔
کیونکہ مولانا صاحب نگاہوں کی حفاظت عضو کی حفاطت سے کرواتے، مولانا لبرلز کو "پیار" سے دگڑدلا کہتے اور آف دی ریکارڈ محفل میں ارشادتے "یہ جو دگڑ دلے مخلوط نظام تعلیم اور عورت مرد کے میل جول کے قائل ہیں، اور کہتے ہیں کہ اس سب سے کچھ نہیں ہوتا، ان کو چاہئیے کہ کسی حکیم کو چیک کروائیں"۔
کیا ہم مرد اس قدر ہوس ناک مخلوق ہیں کہ ضرور غیر محرم عورتوں میں رہنے سے بیس منٹ کے اندر اندر ہماری فشار خون تیز ہو جائے، شہوت کی لہر ناف کے نچلے حصے سے اٹھ کر کلیجے کو آئے، اپنی شہوت انگیز نگاہوں سے اس عورت کو سیک ڈالیں، ہم خیالات کے بستر پر اس غیر محرم عورت کو بھنبھوڑ ڈالیں، اگر بیس منٹ کے اندر ایسا نہیں ہوتا تو ہم دواخانوں کا رخ کریں، چترالی سلاجیت پھانکیں، لوہے پاڑ معجون نگلیں، سانڈے کے تیل سے پنجگانہ مالش کریں، تاکہ ہم اس مرد کی تعریف پر پورا اتریں جس کی تعریف کوٹ پینٹ والے ایک مولوی نے کی کہ بیس منٹ اگر کسی عورت کو تاڑنے سے آپ کے انگ انگ میں بجلی نہیں بھرتی تو آپ کی مردانگی مشکوک ہے۔
یہ ایک ابنارمل اور فرسٹیڈ مرد کی تعریف تو سکتی ہے، مگر ایک نارمل مرد کی تعریف نہیں، ہم کیوں ابھی تک حیوانی سطح پر رہ کر اشرف المخلوقات کے متعلق سوچتے ہیں، اگر کوئی مرد صرف بیس منٹ تک ہی کسی عورت کو دیکھ کر اپنا آپ قابو کر سکتا ہے، اس کے بعد اس کے فوارے لیک ہونا شروع ہو جائیں تو اس مرد اور سانڈ میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔
مسلئہ ہمیں ہیں، عورتوں کے ساتھ اختلاط پر ہمارے جذبات گرم ہوتے ہیں مگر اس حل یہ ہے کہ عورتوں پر بورے ڈال کر انہیں گھروں میں بند کر دیا جائے، بھئی مسلئہ آپ کو ہے، آپ جنسی مریض ہو، پھر گھر میں آپ کس بیٹھنا چاہیے، یہ ٹھیک ویسے ہی ہے اگر کورونا کے مریض کو ڈاکٹر قرنطینہ میں بند کریں تو وہ کہے۔
"بھئی مجھے کیوں کمرے میں بند کر رہے ہو، اگر میرے باہر پھرنے سے دوسروں کو بیماری لگتی ہے تو، سارے شہر والوں کو گھروں میں بند کر دو تاکہ میں باہر آزادی سے گھوم سکوں"۔
یہ کیسا رہے گا پھر، ہر مسلئے کا حل مسلئے سے بھاگنا نہیں ہوتا، اگر عورت کہیں پہ جاب کر رہی ہے، اس کے ساتھ اس کے مرد کولیگ بھی ہیں، تو اس میں مسلئہ کیا ہے۔
"جی، جہاں مرد و عورت کا اختلاط ہوگا وہاں لازمی ناجائز تعلقات پروان چڑھیں گئے، عورت کی قربت سے مرد کی شہوت بھڑک اٹھے گی"۔
پھر اس سے کیا ہوگا بھئی۔
بھڑک اٹھتی ہے شہوت، ہم انسان ہیں، مرد و عورت میں ایک دوسرے کے لیے کشش بھی ہوتی ہے۔
مگر ٹھہریے۔ یہاں ایک مسلئہ ہے جیسے مذہب کے نزدیک شہوت ایک منفی جذبہ ہے ٹھیک ویسے ہی حسد بھی ایک منفی جذبہ ہے، کوئی بڑی گاڑی میں آئے، ڈان کارلس کے بوٹ پہنے، گوچی ارمانی کے برانڈڈ کپڑے زیب تن کرے، اس سے بھی لوگوں کے دلوں میں حسد کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں۔ کیا حسد سے بچنے کا یہ حل ہے رؤسا مہنگے کپڑے اور بڑی گاڑیاں استعمال کرنا چھوڑ دیں۔
ٹھیک یہی معاملہ شہوت کا ہے، حد سے بڑی جنسی طلب مرد کی تعریف نہیں بلکہ نفسیاتی مسئلہ ہے، اگر عورتوں کو بورے جیسے برقعے میں پیک کرکے گھر میں بند کر دیا جائے تو تب بھی یہ شہوت کم نہیں ہوگی، وہاں پھر بچہ بازی عام ہوتی ہے، قاری مسجدوں میں بچوں پر چڑھ دوڑتے ہیں لونڈے بازی کے جمعہ بازار لگتے ہیں، پھر کیا وہاں مردوں کو بھی حجاب کروایں گے، ان کے گھروں سے نکلنے پر پابندی لگائیں گے، کہ ان کی عزت بھی اب محفوظ نہیں رہی۔
اور پھر کوئی پینٹ پوش مولوی بیان دے گا "اگر کسی لونڈے کو بیس منٹ تک دیکھنے سے آپ کو کچھ نہیں ہوتا تو ڈاکٹر کو چیک کروائیں"۔