Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Baloch
  4. Parliament Ke Ikhtiyarat, Jamhuriat Ka Satoon

Parliament Ke Ikhtiyarat, Jamhuriat Ka Satoon

پارلیمنٹ کے اختیارات، جمہوریت کا ستون

پارلیمنٹ کسی بھی جمہوری نظام کی بنیادی اکائی ہوتی ہے جہاں عوام کے منتخب نمائندے قومی مفاد میں قانون سازی کرتے ہیں۔ اس ادارے کا کردار نہ صرف قوانین بنانا بلکہ حکومت کو جوابدہ بنانا بھی ہوتا ہے۔

1۔ قانون سازی کا اختیار:

پارلیمنٹ کے اہم اختیارات میں سب سے اہم قانون سازی ہے۔ آئین کے تحت پارلیمنٹ ملکی قوانین میں ترمیم کرنے، نئے قوانین بنانے اور غیر مؤثر قوانین کو ختم کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔

پاکستان میں قانون سازی کا عمل جمہوری نظام کا اہم ستون ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ عمل عوامی مفاد کے بجائے ذاتی اور سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھتا جا رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں کئی قوانین ایسے منظور ہوئے ہیں جن کا مقصد عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے مخصوص حلقوں کے مفادات کو محفوظ بنانا رہا ہے۔

پیکا ایکٹ: اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغن

پیکا (Prevention of Electronic Crimes Act) کا بنیادی مقصد سائبر کرائمز کی روک تھام تھا، لیکن اس قانون میں ترامیم کے ذریعے اسے آزادیِ اظہارِ رائے کو دبانے کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

حکومتوں نے اس قانون کا سہارا لے کر صحافیوں، سماجی کارکنوں اور تنقیدی آوازوں کو خاموش کرنے کی کوشش کی۔

معمولی تنقید کو "بدنامی" کے زمرے میں ڈال کر کئی افراد کو گرفتاری اور مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔

پیکا ایکٹ میں ترامیم، حکمرانوں کو فائدہ:

تنقید کو دبانا: پیکا ایکٹ میں ترامیم کے ذریعے حکومت نے آزادیٔ اظہار پر قدغنیں لگائیں، جس سے حکمرانوں پر تنقید کرنا مشکل ہوگیا۔

ملک اور جمہوریت کو نقصان:

آزادیٔ اظہار کی محدودیت: ان ترامیم سے میڈیا اور عوام کی آزادیٔ اظہار محدود ہوئی، جو جمہوریت کی بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔

ذاتی مفادات پر مبنی دیگر قوانین

الیکشن ایکٹ میں ترامیم، حکمرانوں کو فائدہ:

انتخابی عمل پر کنٹرول: الیکشن ایکٹ میں ترامیم کے ذریعے حکمران جماعتوں نے انتخابی عمل پر مزید کنٹرول حاصل کیا، جس سے ان کی جیت کے امکانات میں اضافہ ہوا۔

ملک اور جمہوریت کو نقصان:

شفافیت میں کمی: ان ترامیم سے انتخابی عمل کی شفافیت متاثر ہوئی، جس سے جمہوری اقدار کو نقصان پہنچا۔

1۔ نیب قوانین میں ترامیم، حکمرانوں کو فائدہ:

احتساب کے عمل میں نرمی: ان ترامیم کے ذریعے بدعنوانی کے مقدمات میں نرمی پیدا کی گئی، جس سے حکمران طبقے کے افراد کو احتساب سے بچنے میں مدد ملی۔

ملک اور جمہوریت کو نقصان:

احتساب کا عمل کمزور: ان ترامیم سے احتساب کا عمل کمزور ہوا، جس سے بدعنوانی میں اضافہ اور عوام کا اعتماد مجروح ہوا۔

جمہوریت کی بقا اور انصاف کی فراہمی کے لیے ایک آزاد اور خودمختار عدالتی نظام ناگزیر ہوتا ہے۔ عدلیہ نہ صرف عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتی ہے بلکہ ریاست کے تینوں ستونوں (مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ) کے درمیان توازن بھی قائم رکھتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں موجودہ حکومت نے قوانین کے ذریعے عدلیہ کی خودمختاری کو محدود کرنے کی کوشش کی ہے، جو نہ صرف جمہوریت بلکہ آئین کے لیے بھی خطرناک ہے۔

اعلیٰ عدلیہ کو کمزور کرنے والے اقدامات:

1۔ ججز کی تقرری کے قوانین میں ترامیم:

حکومت نے ججز کی تقرری کے عمل میں اپنی مرضی شامل کرنے کی کوشش کی، تاکہ عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہو سکے۔

2۔ عدالتی اختیارات کو محدود کرنا:

کئی قوانین کے ذریعے عدالت عظمیٰ اور ہائی کورٹس کے ازخود نوٹس لینے کے اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی، تاکہ حکومتی پالیسیوں پر عدالتی نگرانی ختم ہو جائے۔

3۔ فیصلوں کو غیر مؤثر بنانا:

عدالتی فیصلوں کو نظر انداز کرنے یا ان پر عملدرآمد نہ کروانے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، جس سے عدلیہ کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔

4۔ ججز کو دباؤ میں لانا:

حکومتی اثر و رسوخ کے تحت ججز پر دباؤ ڈالنے کی خبریں عام ہیں، تاکہ فیصلے مخصوص مفادات کے حق میں آئیں۔

جمہوریت اور انصاف کے لیے خطرہ:

عدلیہ کو کمزور کرنے سے عوام کے بنیادی حقوق خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔ حکومت کے بے قابو ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے کیونکہ عدلیہ حکومتی زیادتیوں کو روکنے کا اہم ذریعہ ہے۔ معاشرے میں قانون کی حکمرانی ختم ہو جاتی ہے، جس سے بدعنوانی اور لاقانونیت کا رجحان بڑھتا ہے۔

عوام اور سول سوسائٹی کی ذمہ داری:

عدلیہ کے تحفظ کے لیے عوام کو آواز اٹھانی چاہیے۔

سول سوسائٹی اور وکلا برادری کو عدلیہ کی خودمختاری کے لیے تحریک چلانی چاہیے۔

میڈیا کو اس مسئلے کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

عوامی مفادات کا نقصان

ایسے قوانین عوامی حقوق کو پامال کرتے ہیں اور جمہوری اقدار کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ آزاد میڈیا اور سول سوسائٹی کو دبانے سے شفافیت اور احتساب کا عمل کمزور ہوتا ہے۔

نتیجہ!

الیکشن ایکٹ میں ایسی ترامیم کی اشد ضرورت ہے جو جمہوریت کے استحکام، شفافیت اور عوام کے حقیقی نمائندوں کے انتخاب کو یقینی بنائیں۔ اگر عوام اور متعلقہ ادارے خاموش رہے تو مستقبل میں جمہوری نظام مزید کمزور ہو سکتا ہے۔

پارلیمنٹ ایک ایسا ادارہ ہے جو عوام کی آواز کا حقیقی ترجمان ہوتا ہے۔ اس کے اختیارات کے مؤثر استعمال سے نہ صرف جمہوری نظام مضبوط ہوتا ہے بلکہ عوامی مسائل کے حل کے لیے بہتر فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔

اعلیٰ عدلیہ کو قوانین کے ذریعے کمزور کرنا ایک خطرناک رجحان ہے جو جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔ عدلیہ کی آزادی کسی بھی جمہوری ریاست کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے اور اس پر قدغنیں لگانا ملک کو سیاسی اور معاشرتی انتشار کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ عوام اور متعلقہ اداروں کو اس صورتحال کے خلاف بھرپور مزاحمت کرنا ہوگی۔

پاکستان کو ایک ایسی پارلیمنٹ کی ضرورت ہے جو عوامی مسائل کو ترجیح دے اور قانون سازی صرف قومی مفاد کے تحت کرے۔ اظہارِ رائے کی آزادی جمہوریت کی بنیاد ہے، جس پر قدغنیں لگانا ملک کی ترقی میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ ایسی غلط قانون سازی کے خلاف آواز بلند کریں تاکہ جمہوریت مضبوط ہو اور انصاف کا بول بالا ہو۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari