Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zia Ur Rehman
  4. Lady Diana Aur Mohtarma Maryam Nawaz Sharif

Lady Diana Aur Mohtarma Maryam Nawaz Sharif

لیڈی ڈیانا اور محترمہ مریم نواز شریف

دنیا کی آنکھوں کا تارا تھی ڈیانا اور اسکے قد کاٹھ کے سامنے کبھی کبھار ملکہ الزبتھ بھی چھوٹی لگتی تھیں۔ دنیا، لیڈی ڈیانا کے سامنے بچھتی تھی، اسکی ایک جھلک اور ایک ایک حرکت کو کیمرہ میں محفوظ کرتی تھی، سربراہانِ مملکت سے لے کر فلم ٹی وی کی مشہور شخصیات، گائک اور کھلاڑی، سب ہی اسکے دیوانے تھے۔

دنیا کے کتنے ہی خیراتی ادارے اسکے دم سے چلتے تھے، اس نے ایڈز کے مرض میں مبتلا ایک بچے کو اپنی گود میں بٹھا کر دنیا کو یہ احساس دلایا کہ ایڈز کوئی اچھوت مرض نہیں ہے کہ اسکے مریض کے قریب ہی نہ آیا جائے۔ لیڈی ڈیانا، اپنے وقت میں دنیا کی سب سے بڑی سلیبرٹی تھی، ہم آج بھی اسکے سحر سے نہیں نکلے۔۔ لیکن۔۔ کبھی تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ لینا چاہیئے

لیڈی ڈیانا، ایک باغی تھی جس نے شاہی خاندان کی روایات سے ہٹ کر بہت سے کام کیے، ایسے کام جو ایک عام عورت تو با آسانی کر سکتی ہے لیکن رائلٹی کے کچھ آداب ہوتے ہیں جن کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے رائل فیملی کی خواتین نہیں کرتیں۔ لیڈی ڈیانا اور شہزادہ چارلس کے تعلقات میں شادی کے کچھ بعد ہی تناؤ آ گیا تھا جس کا اختتام انکے درمیان علیحدگی پر ہوا، دنیا کے تمام میڈیا کا جھکاؤ لیڈی ڈیانا کی طرف ہونے کے باوجود، رائل فیملی میں سے کبھی بھی کسی نے اسکے خلاف ایک لفظ نہیں بولا یہاں تک کے شہزادہ چارلس (جو اس پورے عرصہ کے دوران ایک ڈریکولین ولن کے طور پر دکھتے تھے) نے اس ناروا سلوک پر شکوہ تک نہیں کیا۔ لیڈی ڈیانا کی باغیانہ اور کھلنڈری طبیعت اسے موت کے منہ میں لے گئی، ایسے وقت میں جبکہ وہ شہزادہ چارلس سے علیحدہ ہو چکی تھی پھر بھی اسکی موت کے بعد رائل فیملی نے اسے own کیا اور ایک شہزادی کے طور پر آخری رسومات ادا کیں۔

It took THE MONARCHY at least 20 years to rebuild it's image among the people which was severely damaged by lady Diana's antics and unwanted accusations.

کبھی تو کوئی لکھنے والا بتا ہی دے گا کہ لیڈی ڈیانا جیسی خاتون نے رائل فیملی کو کتنے کرب اور مشکل میں مبتلا رکھا۔

مشرف سے معاہدہ کرکے ضامن کے طور پر نوجوان حمزہ شہباز کو پاکستان میں پیچھے چھوڑتے ہوئے میاں نواز شریف صاحب نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ایک وقت آئے گا جب وہ اپنے اس فیصلے پر پچھتائیں گے۔ انکے اپنے دونوں برخوردار وطن سے ایسے گیے کہ انہوں نے پاکستانی شہریت ہی چھوڑ دی۔ حمزہ شہباز نے پاکستان میں رہ کر اس دوران دھڑے اور تھڑے کی سیاست دونوں سیکھیں۔ اس نے مشکل ترین حالات میں بھی پارٹی کو کسی نہ کسی طرح زندہ رکھا۔ ہر سیاسی پارٹی کو چند ایسے ہارڈ کور فین میسر ہوتے ہیں جو اس پارٹی کی اصل لائف لائن ہوتے ہیں۔ سیاسی پارٹی! اپنے سربراہ نہیں، ان ہارڈ کور فینز کے سر پر چلتی ہے، حمزہ شہباز نے اپنی اس بیس کو بکھرنے نہیں دیا۔

لاہور کے اندرون میں سید مٹھا نامی ہسپتال کے ارد گرد آبادی میں ہر گلی محلے میں حمزہ شہباز یا تو کسی خاتون کا بیٹا یا بھانجا ہوگا یا کسی مرد کا پوتا، بھتیجا یا بھائی یا بیٹا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں حمزہ شہباز انکے نام تک سے جانتا ہے اور یہ وہ علاقہ ہے جہاں سے میاں نواز شریف صاحب 1985 سے جیت رہے ہیں۔ جماعت، مسلم لیگ ن کے لئے یہ جگہ دل کی حیثیت رکھتی ہے۔ آٹھ سال بعد میاں صاحب جب واپس آئے تو مرحومہ کلثوم نواز صاحبہ نے جب یہ دیکھا کہ ہاؤس آف شریف میں اب انکے میاں صاحب کی جگہ انکا بھتیجا باآسانی لے سکتا ہے تو انہوں نے حمزہ شہباز کو سائیڈ لائن کروا کر محترمہ مریم نواز صاحبہ کو پارٹی آرگنائزر کے طور پر آگے کر دیا تا کہ بعد ازاں صدارت انہی کے خاندان میں رہے۔

محترمہ مریم نواز صاحبہ بھی دنیا کے لیے ایک خوش شکل اور چارمنگ لیڈی ہے لیکن اپنے خاندانی معاملات میں سخت گیر اور ہٹ دھرم خاتون ہیں، انکی باغی طبیعت بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، نا ہی انکا آئی کیو لیول ایک عام گھریلو خاتون سے زیادہ ہے۔ چرب زبان اور ایک ہی لکیر کو پیٹنے کے علاؤہ انکا ویژن بھی سطحی ہے۔ انکی کراؤڈ پلنگ پاور میں سوائے انکے نین نقش کے کچھ بھی نہیں ہے۔ محترمہ نے اپنے ارد گرد الول جلول تو جمع کر دیا لیکن پارٹی کی اصل بیس کو دور کر دیا۔ حمزہ شہباز کو سائیڈ لائن کرتے کرتے محترمہ نے اس ہارڈ کور بیس کو تباہ کر دیا جو مسلم لیگ ن کی لائف لائن تھے۔

لیڈی ڈیانا اور محترمہ مریم نواز خوش شکل خواتین ہیں لیکن رائل فیملی اور ہاؤس آف شریف سے کبھی پوچھنا کہ اس خوبصورتی کی قیمت انہوں نے کیا ادا کی ہے۔

Check Also

Special Bachon Ka Social Network

By Khateeb Ahmad