Hosh Walon Ko Khabar Kya
ہوش والوں کو خبر کیا
ہماری جماعت میں جب سے اس نے قدم رکھا تھا، ہم دوست بھی اس دن سے جماعت میں مستقل حاضری دینے لگے۔ مشرقی حُسن کی جتنی نشانیاں بتائی گئیں تھیں، قریب قریب سب ہی اس میں موجود تھیں، بلکہ چند ایک اضافی بھی۔ نام بھی مشرقی، حُسن بھی مشرقی، چال ڈھال اور حیا بھی مشرقی۔ نجانے کن فرصت کے لمحات میں تیار کی گئی تھی۔ ہمارے ایک دوست کا گمان تھا کہ تخلیق کار نے اسکے بعد وہ سانچہ ہی توڑ دیا جس میں اسکا یہ خمیر تیار کیا گیا تھا۔
ایک دوست کا فرمان تھا کہ انکی نگاہ وائرس کی طرح ہوتی ہے کہ جس پر پڑ جائے اسکا سارا نظام کرپٹ ہو جاتا ہے۔ ایک سائنسدان فرمانے لگا کہ گرمیوں کی پہلی بارش میں افق سے اٹھتی کالی گھٹا کو نظر میں رکھ کر انکی کالی پلکیں بنائی گئیں تھیں۔ ایک مزدور نما دوست کا کہنا تھا کہ کوئلے کی 100 فٹ گہری کان میں ڈیوٹی پر مامور فرشتے سے اسکی کالی زلفوں کا رنگ مانگا گیا تھا۔ مجنوں دوست اسکو لیلہ سے شاعر دوست اسے چاند سے اور سیاسی دوست اسے وزیراعظم کی شیروانی سے تشبیہ دیتے تھے۔
ظالم، پڑھائی میں بھی سب سے آگے تھی اور ظلم ہمارے ان جوان اساتذہ پر ہوا جو اسکے آنے سے پہلے ہمیں پڑھاتے تھے اور اسکے آنے کے چند دن بعد ہی انکو کوئی اور جماعت پکڑا دی گئی اور ہماری جماعت کے حصہ میں کالج کے سب ہی بوڑھے اساتذہ آ گئے۔ کالج کا وقت ختم ہونے کے بعد بھی ہم اسی تگ و دو میں لگے رہتے تھے کہ پری ذات کے گھر کا بھی کچھ معلوم ہو سکے تو پروانوں کو اگلے دن تک کے انتظار کی اذیت نا اٹھانی پڑے لیکن موصوفہ کالج ختم ہونے کے بعد پرنسپل کے آفس میں چلی جاتیں اور پرنسپل صاحب اپنے کمرے سے باہر نکل کر کالج سے نکلنے والے بچوں کی نگرانی شروع کر دیتے۔
اب ہماری سمجھ سے باہر تھی یہ بات کہ پرنسپل صاحب کے تمام بچوں سے ہم پہلے ہی مل چکے تھے اور سب کے سب چھوٹے تھے۔ تو پھر کیا یہ انکی بھانجی یا بھتیجی ہے؟ اگر ایسا ہے تو ہمارا ایک دوست جو انکے قریب ہی تیسری گلی میں رہتا تھا، اسکو کیوں معلوم نہ تھا؟ پھر یوں ہوا کہ ہمارا وہ دوست تین دن سکول سے غیر حاضر رہنے کے بعد جب چوتھے دن وارد ہوا تو ایک آنکھ کالی اور گالوں پر مرمت کے نشان تھے۔ لنگڑاتا ہوا جب ہمارے درمیان آیا تو کہنے لگا۔
جوانو! یہ نہ پوچھنا کہ مجھے کیا ہوا ہے، بس میرے لیے پان سیگریٹ کا بندوست کرو اور مجھے اچھا سا کھانا کھلاؤ۔ تم لوگوں کے لیے ایک ضروری خبر لے کر آیا ہوں۔ اسکے والد صاحب، ریٹائرڈ فوجی آفیسر تھے، بیٹیوں کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا تھا اور بیٹوں کی پیٹھ کبھی زخموں سے خالی نہیں رہنے دیتے تھے، ہم اکثر کہا کرتے تھے کہ والد تو ہم سب کے ہی ظالم ہیں لیکن تم بھائیوں کے والد تو "جلاد پرو میکس" ہیں۔
عجب یہ تھا کہ ہم سب کے ہی والد اپنے بچوں کو یہ کہ کر بھی ٹھکائی کر دیتے تھے کہ تمہارے دوست کتنے شریف النفس بچے ہیں اور تم انکو بھی اپنی صحبت میں خراب کر بیٹھو گے۔ آج ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ہمارے والدین نے (محبت "کوٹ کوٹ" کے بھری ہونا) کو صرف لفظی ترجمہ ہی سمجھا تھا۔ اور اپنے بچوں کو کوٹ کوٹ کے ان پر اپنی بے پناہ محبت کا اظہار صبح شام فرماتے تھے۔
اپنی مکمل سیوا کروانے کے بعد دوست بتانے لگا کہ چار دن پہلے عشاء کی نماز کے بعد والد صاحب کے ساتھ باہر نکلا تو پرنسپل صاحب بھی والد صاحب کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے۔ باتوں باتوں میں میری تعلیم کی بات چل نکلی اور وہیں پرنسپل صاحب فرمانے لگے کہ میری بھتیجی "نورین" بھی تو تمہاری ہی جماعت میں پڑھتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ہی میرے پاس شفٹ ہوئی ہے۔ وہ پڑھائی میں کیسی ہے؟
کہنے لگا کہ نورین کا نام سنتے ہی میرے دماغ کو جو تخیل کے پر لگے تو میں انکے سامنے ہی سر دھننے لگ گیا، (میرے خیالوں کی ملکہ، میرے سپنوں کی رانی، میرے دکھوں کی مرحم، میرے دل کی دھڑکن۔۔ میرے ساتھ والے محلہ میں رہتی ہے، میری خوش نصیبی کہ مجھے اس کے گھر کا طواف کا شرف بھی ملے گا)۔۔ پرنسپل کا سوال تو یاد نہیں رہا کہ کیا تھا البتہ سر دھنتے دھنتے میرے منہ صرف اتنا نکلا
"وہ تو بہت ہی سندر ہے"۔۔
چند لمحوں بعد احساس ہوا کہ چار عدد آنکھیں مجھے مسلسل غصہ سے گھور رہی ہیں، جن میں والد صاحب کی آنکھوں سے اب باقاعدہ انگارے نکلتے بھی محسوس ہو رہے تھے، اندازہ تو گیا کہ زبان پھسل گئی ہے، والد صاحب کو آستینیں چڑھاتے دیکھ کر اپنا انجام سامنے نظر آنے لگا۔ میری آنکھ سے آنسو بہ کر نکلا لیکن کم بخت منہ سے ایک عدد ہچکی کے ساتھ غلطی سے پھر یہ پھسل گیا
ہوش والوں کو خبر کیا
بے خودی کیا چیز ہے
محلہ والے بتاتے ہیں کہ اس بچے کو اسکے والد نے محبت "کوٹ کوٹ" کے بھرے ہونا کا آخری سبق بھی یاد کرا دیا۔ افسوس ہمیں دوست کی مار کا ایک فیصد بھی نہیں ہے کیونکہ اسکی وجہ سے نورین نے بھی کالج چھوڑ کر کسی اور کالج میں داخلہ لے لیا۔