Monday, 31 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zia Ur Rehman
  4. Do Ghalat Ka Sahi

Do Ghalat Ka Sahi

دو غلط کا صحیح

ملک میں حالیہ واقعات کو دیکھ کر جہاں انتہائی دکھ ہوتا ہے وہیں اس بات پر بھی حیرت ہوتی ہے معاملات بگاڑنے والے حضرات اور ادارے، کس طرح سے اپنے اپنے غلط کو صحیح ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ عام عوام ہے کہ آدھی ایک کے ساتھ کھڑی ہے اور آدھی دوسرے کے ساتھ۔ ایسے غلطان پر عوام کو کیا پوزیشن لینی چاہیئے اس پر ہم سوچ ہی نہیں رہے۔

جعفر ایکسپریس کا سانحہ، کوئی isolated سانحہ نہیں ہے، اس کے پیچھے کے محرکات اور اسکو execute کرنے والے افراد، دونوں ہی غلط ہیں۔ انکو کسی بھی طرح نہ ہی جسٹیفائی کرنا بنتا ہے نہ ہی اس پر سیخ پا ہو کر غلطیوں کا نیا پہاڑ کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں بیٹھے بے حس نمائندوں، انکو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنے والے ادارے، اس ادارے کو کندھا دینے والے انصاف کی کرسی پر جعلی وگ لگائے اول درجے کے کرپٹ لوگوں سے ہوتے ہوئے پر تشدد کاروائیوں میں ملوث گروہ اور پھر اسی گروہ کے عوامی نسوانی چہروں کی ملی بھگت ہے۔ اول کے تین ادارے اور دوئم کے دو گروہ، دونوں ہی اس وقت اپنی حرکتوں اور کرتوتوں کے باوجود عام عوام سے اپنی حمایت چاہتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر شور ہے کہ ہماری بہنوں پر احتجاج کے دوران تشدد ہوا۔ بلکل ہوا، لیکن کیا صرف آپکی ہی ماں بہنیں ہیں، نو مئی کے بعد کتنے ہی خاندانوں کے ساتھ اس ادارے کا یہی رویہ رہا، آپ میں سے کسی نے ایک دفعہ بھی اسکی مذمت کی؟ کیا جعفر ایکسپریس میں خواتین موجود نہیں تھیں؟ آپ نے اسکی مذمت کی؟ شناختی کارڈ دیکھ کر ایک ہی صوبے کے افراد کو بسوں ویگنوں ٹرکوں سے اتار اتار کے بے دردی سے مارا گیا؟ کیا کہیں مذمت نظر آئی؟ خاص وضع قطعہ کے حامل افراد کے لیے پورا صوبہ نو گو ایریا بنا دیا، کہیں اسکی مذمت کی؟ کہیں اپنے رند، رئیسانی، مگسی، بگتی سرداروں کی اس صوبہ کے ساتھ زیادتی نظر نہیں آتی؟

یہ لوگ اپنی پوری پوری نجی جیلیں رکھتے ہیں، عوام کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے، کیا آپکو معلوم نہیں ہے کہ پچھلا وزیراعلی شراب کے نشے میں اتنا دھت رہتا تھا کہ ایک کیپٹن رینک کا بندہ اسکے ہاتھ پکڑ کر فائلوں پر سائن کروایا کرتا تھا، آپ لوگوں نے کبھی اس پر بات کی؟ فیشن کے طور پر ایک صوبے کو گالی دیتے ہیں، لیکن یہ فیشن ہی ہے، اس میں اصل کچھ بھی نہیں ہے، فیشن کے طور پر فوج کو گالی دیتے ہیں حالانکہ کے اچھی طرح معلوم ہے کہ اسی فوج کی سب سے نڈر بلوچ ریجمنٹ ہے جس نے کیسے کیسے سپوت اس وطن کو عطاء کیے، وہ سب پنجابی ہیں کیا؟ محرومیوں کا ہی ذکر کرنا ہے تو نواب ظفر اللہ جمالی مرحوم سے بھی پوچھ لیتے کہ وزیراعظم رہے تھے، صوبہ نے ترقی کیوں نہ کی؟

ماہرنگ بلوچ ہوں، سسی بلوچ ہوں یا کوئی بھی، یہ سب مل کر جعفر ایکسپریس سانحہ کوور آپ دینے کے درپے ہیں اور انکو یہ کوور، ڈفروں کی آماجگاہ باہم پہنچانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ سیاست دان تو ویسے ہی بھنگی نسل ہو چکے اور جعلی وگ والے اپنے بلوچی سابق چیف جسٹس کی بدولت اپنے ہاتھ پیر کان ناک منہ اور پر کٹوا کر منڈی مرغی کی طرح ککڑوں کوں سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔ ایسی مرغی جو اب انڈہ بھی نہیں دے سکتی کہ اسکو کمک پہنچانے والے کالے کوٹ بھی جیبیں بھر کر انصاف کو بھول چکے۔۔

اس سب کے باوجود، ہم برملا کہتے ہیں کہ جہاں جعفر ایکسپریس والا سانحہ دل خراش ہے وہیں، کسی بھی ماں بہن بیٹی کو احتجاج کے دوران اس درندگی کا سامنا نہیں کرنا چاہیئے۔ چادر اور چار دیواری کا تحفظ اور تقدس ہر حال میں ملحوظ خاطر رکھنا چاہئیے۔ عورت، چاہے بلوچی ہے، سندھی ہے، پختون ہے، پنجابی ہے، مسلمان ہے یا غیر مسلم، انکا احترام ایسے ہی کریں جیسے اپنی ماں اور اپنی بچی کا کرتے ہیں۔ وہ غلط سہی لیکن ان پر اپنا غلطان نہ مسلط کریں۔

مسئلہ یہ ہے کہ عام عوام اپنی امید کس سے باندھیں، کسے اپنا مسیحا گردانیں۔ افسوس کہ ہم قحط الرجالیت کی بھی کسی انتہائی نیکسٹ لیول پر پہنچ چکے ہیں۔

Check Also

Awam Ki Hard State

By Saira Kanwal