Yaddasht
یاداشت
ماضی کی یاد ہماری ایک ایسی خوبی ہے جو ہمیں باقی جانداروں سے الگ کرتی ہے، مگر ہمارے دماغ میں ماضی کی کوئی تصویر بھی شفاف نہیں بنتی جبکہ ہمارے کمپیوٹر پہ تو اسکے ماضی کی تصاویر کافی شفاف ہوتی ہیں۔ ہر چیز واضح نظر آتی ہےلیکن ہمارے دماغ میں بننے والی تصاویر دھندلی کیوں ہوتی ہیں؟
اس سب کو جاننے کے لئے ہمیں دماغ کی کیمیونیکیشن کو دیکھنا ہوگا۔ ہمارے دماغ میں یاداشت مختلف کیمیکل سگنلز کی صورت میں سٹور ہوتی ہے، جسکے نتیجے میں بننے والی یاداشت اتنی پختہ اور دیر پاء نہیں ہوتی اور اس یاداشت تک پہنچنے کے لئے ہمیں کچھ وقت لگتا ہے۔
جبکہ اسکے مقابلے میں ایک کمپیوٹر کی میموری الیکٹرانک سرکٹ میں سٹور ہوتی ہے، جو کہ رسائی کے لئے آسان اور لمبے عرصے تک محفوظ کرنے کے لئے کئی گنا زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ اسی لئے ایک کمپیوٹر پہ نظر آنے والی یاد، ہمارے دماغ میں آنے والی یاد سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ لیکن کیا اگر ہم کیمیکل کی بجاۓ، ڈیجیٹل الیکٹرانک یاداشت رکھتے تو کیا ہوتا؟ ایسی صورت میں ہم مختلف چیزیں لمبے عرصے تک یاد رکھنا شروع ہوجاتے اور کچھ بھی نا بھلا پاتے، حتیٰ کہ غم اور درد بھی۔
جی ہاں!غم اور درد بھی، پھر ہم درد کو اسی طرح محسوس کیا کرتے جس طرح ہم نے اسکو سہا تھا۔ اور یوں ہم ہر بار ماضی کا سوچنے پر پہلے جیسے درد میں گم ہوجاتے۔
سوچیں!ایک کیمیکل نروس سسٹم میں دھندلی یاداشت والا غم اتنا درد دیتا ہے تو الیکٹرانک یاداشت میں اوریجنل درد کو باربار محسوس کرنا کیسا ہوگا؟
مستقبل قریب میں جب بائیونک انسان آئیں گے تو انکی پہلی کوشش یاداشت کو ڈیجٹلائز کرنے کیساتھ ساتھ، درد کا خاتمہ بھی کرنا ہوگا۔ درد کو ریسرچر، ارتقاء کا کچرا بھی کہتے ہیں۔ جوکہ صرف سروائیوال کے سگنل رکھنے کے طور پہ وجود میں آیا۔ مگر اب کیا درد کی اہمیت کم ہوگئی ہے اور درد کے بغیر دنیا کیسی لگے گی؟ ان سوالوں کو چھوڑتے ہوۓ میں تو چلا۔ اب آپ سوچیں اور غور کریں۔