Tarbooz Kahani
تربوز کہانی
تربوز تیس چالیس روپے کلو پر شکر ادا نا کرنے والی قوم کو کیا معلوم کہ یہاں پر ایک تربوز کی قتلی بھی تین سے چار ڈالر کی پڑتی ہے اور اس پر کچھ نیم حکیم ٹائپ ڈاکٹروں کی مان کر بائیکاٹ کرنے والی قوم سے تربوز چھین لینے چاہیں۔
ایک سادہ سی کامن سینس ہے کہ ایک ایکڑ کے کھیت میں روزانہ کے تربوز کے دانے سو سے اوپر ہی اترتے ہیں اور جو کمرشل تربوز لگاتے ہیں وہ کئی ایکڑ تک لگاتے ہیں اور کئی ایکڑ پہ لگے تربوز کی روزانہ کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر جاتی ہے۔ نا نا کرتے پانچ چھ سو ہفتے کا تربوز ایک چھوٹا کسان نکال دیتا ہے۔
اب یہ تربوز کو انجیکشن لگانے بیٹھ جائیں تو ایک تربوز پر ایوریج تیس سیکنڈ لگیں تو پانچ سو تربوزوں کو سرخ کرنے پر آپ کو پانچ گھنٹے لگ جائیں گے اور اگر آپ نے منڈی بھیجنے ہوں تو ایک ٹرک تربوز کو انجیکشن لگانے پر نا نا کرتے دو دن لگیں گے اور دو دن پرانا تربوز انہی کے منہ جیسا "باسی" بن جاتا ہے جو تربوز کو انجیکشن لگانے کی بات کرتے ہیں۔
لیکن یوٹیوب اور قلم کار مافیا کو پتا لگ گیا ہے کہ عام پاکستانی کا پسندیدہ مشغلہ بائیکاٹ ہے اور وہ بیچارے کریں بھی کیا؟ اب جس غریب کی حکومت سے لے کر بیوی تک کوئی نا سنے وہ معصوم بچوں کی طرح ہر چھوٹی چھوٹی بات پر منہ بسور کر بیٹھنے کا عادی بن جائے گا۔
یہی کمزوری اب مافیا ایکسپلائٹ کر رہا ہے اور یہ ہر دوسرے دن کسی نا کسی چیز کے بائیکاٹ کو شروع کر دیتا ہے اور مقصد عوامی فلاح نہیں بلکہ اپنی مشہوری ہے۔ ورنہ اگر ان میں دم ہو تو "ان" کا بائیکاٹ کرکے دکھائیں مگر وہاں سب کی ہٹتی ہے سو سب کا وہ بچہ جو کمزوری کا شکار ہے آئے روز کسی نا کسی کے بائیکاٹ کا کہتا رہتا ہے۔
جتنا کسان کو پسنے کی طرف لیجایا جا رہا ہے اس کا واحد مقصد رہی سہی زرعی زمینیں ہتھیانا ہے۔ ورنہ منڈی جانے والے جانتے ہونگے کہ ایک ٹرک پر سینکڑوں تربوز ہوتے ہیں اور ایسے کئی درجن ٹرک روزانہ منڈیوں میں نیلام ہوتے ہیں۔ اگر کسان رنگ ڈال کر تربوز لال کرنے پر لگ گیا تو بک گئے تربوز۔
ہر طرف سے پسنے والا غریب اندھا دھند ایسے بائیکاٹس کا حامی ہے کیونکہ ایسا کرنے سے اس کی ڈوپامنرجک انرجی ریلیز ہوتی ہے جو کہ اس کو احساس دلاتی ہے کہ وہ خود پہ ہونے والے مظالم کا بدلہ اتار رہا ہے جبکہ اس غریب کو معلوم نہیں ہوتا کہ یہ اس کو بدھو بنایا جا رہا ہے۔
اس وقت پوری پاکستانی قوم فرسٹریشن کا شکار ہو کر ہر چیز کا بائیکاٹ کرنے کی مہموں کے پیچھے ہے کیونکہ ان میں بےبسی انتہا تک پہنچ چکی ہے اور یہ اپنی فرسٹریشن نکال بھی نہیں پا رہے لہذا یہ ایک سراب میں جی رہے ہیں۔ اس کو ہم طاقت کا سراب کہہ سکتے ہیں جس میں ہر شخص بائیکاٹ کا بولتا ہے اور اگر بائیکاٹ کامیاب ہو جائے تو ہر کوئی سمجھتا ہے کہ اس کی ایک پوسٹ نا ہوتی تو بائیکاٹ کامیاب نا ہوتا۔
اور یوں یہ illusion of power ان کو ایک کھیل فراہم کر رہا ہے جو کہ فرسٹریشن سے تو بھگا رہا ہے مگر انہیں مزید چڑچڑا کئے جا رہا ہے۔