Pyar Ke Marahil Aur Iss Ke Izhaar Ka Dar (2)
پیار کے مراحل اور اسکے اظہار کا ڈر (2)
2: پیار ہم میں چھپے احساس کمتری کو اجاگر کرتا ہے۔
ہمارا بچپن ہماری زندگی کے تجربات پہ بہت بری طرح سے اثر انداز ہوتا ہے۔ ہمارے بچپن کے بیشتر تجربات ہمارے مستقبل کے تمام ری ایکشنز کا تعین کرتے ہیں، ایسے میں ہم میں چھپا احساس محرومی ہماری جان کبھی بھی نہیں چھوڑتا۔ یاد رہے ایک بچہ ایک مکمل بڑے وجود جتنی عزت اور بچے جتنا ان لمیٹڈ پیار مانگتا ہے۔ اگر بچپن میں ہم کو وہ پیار نہیں مل سکا جو کہ ہمیں چاہیے تو یہ ہم میں ایک احساس محرومی کو ڈیولپ کروا دیتا ہے اور یہ احساس ہم کو بار بار بول کر جتاتا ہے کہ کوئی شخص اتنا پیار کرنے والا کیسے اور کیونکر ہوسکتا ہے؟ ضرور یہ شخص اپنے جذبات کو فیک کرکے مجھے حاصل کرنا چاہتا ہے میں تو کوئی اتنا سپیشل نہیں ہوں بلکہ مجھے تو اتنا پیار چاہیے ہی نہیں جتنا پیار یہ شخص دے رہا ہے۔
ضرور یہ شخص مجھے دھوکہ دینے کے چکر میں ہے۔ یہ آواز ہم میں ایسے آتی ہے جیسے کوئی کوچ یا بڑا ہم کو غلط کام کرنے سے روک رہا ہوتا ہے اور یہ آواز اتنی نارمل ہوتی ہے کہ ہم اس کو اپنا دشمن سمجھنے کی بجائے اپنا دوست سمجھ کر اسی پر عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں، جو کہ ہمارے لئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے مگر ہم کو علم نہیں ہوتا کہ یہ آواز غلط اور ہماری دشمن ہے کیونکہ ہمیں بچپن میں جو پیار اور ایٹی ٹوڈ ملا تھا وہ ہماری عزت نفس کچل دینے والا تھا، سو اب ایک دم سے اتنی اہمیت ہم کو ہضم نہیں ہوتی اور ہم اس کو غلط سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ کیونکہ اس شخص سے ملنے والا پیار اور برتاؤ ویسا ہوتا ہی نہیں جس کے ہم عادی ہوا کرتے تھے۔
3: نیا پیار پرانے زخم کریدتا ہے۔
ہم میں سے مجارٹی اپنے پرانے بریک اپ سے نکلنا ہی نہیں چاہتی۔ اکثر اوقات ہم کسی ایسے شخص سے پیار کر بیٹھتے ہیں جو کہ نرگسیت پسند اور ٹاکسک پرسنالٹی کا مالک ہوتا ہے۔ اور اس سے ہم کو اتنے زخم مل چکے ہوتے ہیں کہ ہم سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کہ پیار نامی جذبہ محض ایک ٹاکسک مائنڈ سیٹ ہے اور کچھ نہیں۔ ان زخموں میں ہمارے بچپن سے لیکر اب تک کی پرسنالٹی تک ملنے والے سب زخم شامل ہوتے ہیں اور جونہی ہم کسی سے اظہار کی طرف جانا شروع کرتے ہیں تو یہ زخم اور جذبات جیسا کہ غصہ، درد، ریجیکشن ہم کو احساس دلانا شروع کر دیتے ہیں کہ پچھلی دفعہ جو زخم ملے تھے اس شخص سے ملنے والے جذبات بھی ویسے ہی ہوں گے۔
اس بارے ڈاکٹر پیٹ لو کا کہنا ہے کہ "جب آپ پیار کی چاہت میں ٹھکرائے جاتے ہیں تو پیار آپ کے لئے ایک درد کا احساس بن جاتا ہے۔ "
4: پیار تو ہمیشہ غیر متوازی ہوتا ہے۔
ہم میں سے اکثر لوگ پیار کرتے ہوئے جس بات سے ڈرتے ہیں وہ اگلے شخص سے ملنے والا لامحدود پیار ہوتا ہے۔ لوگ اس بات سے بہت ڈر جاتے ہیں اور اپنے پیار کا اظہار نہیں کرتے کہ اگلا شخص بہت زیادہ پیار دینے والا ہے، ایسے میں ہم اس کو کیا دیں؟ ہم تو اگلے شخص کو ہرٹ ہی کر دیں گے۔ اور اس ہرٹ نا کرنے کے چکر میں وہ اس پیار کے اظہار سے کترانا شروع کر دیتے ہیں۔
جبکہ
ایسا نہیں ہوتا کہ دونوں اطراف سے ملنے والا پیار ہمیشہ یکساں اور مساوی ہو۔ پیار میں وقت کیساتھ ساتھ کبھی ایک فریق بازی لیجاتا ہے تو کبھی دوسرا فریق۔ کبھی کبھی ایسے لمحات آتے ہیں کہ آپ کو اس شخص کے بارے میں اتنے منفی خیالات آنا شروع ہو جاتے ہیں کہ آپ کا دل کرتا ہے کہ اس کو ابھی اور اسی وقت چھوڑ دوں۔ وہیں کچھ لمحے ایسے ہوتے ہیں کہ آپ اس کو چھوڑنا تو دور اس کے خیال کو ترک کرنا بھی گناہ سمجھتے ہیں۔ سو اس وجہ سے بہت سے لوگ ڈرتے ہیں کہ اگر اگلا زیادہ پیار کرنے والا ہے تو اس کے ساتھ وہ زندگی انجوائے نہیں کر سکتے حالانکہ زندگی انجوائے ہی اس شخص کیساتھ ہو سکتی ہے جو آپ کیساتھ بہت سا پیار کر سکے۔
5: پیار خاندان سے منقطع کر سکتا ہے۔
یہ بات بالکل درست اور جائز ہے۔ اگر آپ کسی شخص کیساتھ جذباتی تعلق استوار کر رہے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ اب بچے نہیں رہے اور جذباتی طور پہ میچور ہو رہے ہیں۔ اور اس میچورٹی کا پہلا قدم ہی یہ ہے کہ آپ والدین کا بچہ بن کر رہنے کی بجائے کسی شخص کو اپنا ساتھی سمجھ کر جینا شروع کر دیں۔ اس سفر میں ضروری نہیں کہ آپ خاندان سے روابط منقطع کر دیں بلکہ یہ اس وجودی بحران سے نکلنے کا سفر ہے جو ایک بچے کو محسوس ہوتا ہے اور بڑے ہونے تک کا سفر ہے۔
یاد رہے ریلیشن شپ کے بارے میں والدین یا فیملی کی رائے کا احترام ضروری کریں مگر اپنے پارٹنر کے بارے میں انکی منفی گفتگو کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیں کیونکہ آپ اپنے پارٹنر کو والدین سے بہتر جانتے ہیں، سو اس کے بارے میں کسی شخص کی رائے سن کر بدظن ہونے یا اس سے دور ہونے کی غلطی مت کریں۔ انسان نفسیاتی طور پہ کافی کمزور واقع ہوا ہے۔ ہمارے بچپن کے تجربات اور ہمارے پہلے پہلے تجربات ہماری زندگی کے رخ کا تعین کرتے ہیں۔ اگر ہم میں وجودی بحران یا بچپن کا کوئی احساس کمتری موجود ہے تو ہم اگلے سے ملنے والے پیار کو بھی غلط سمجھ کر اپنی نادانی سے اس کو کھو سکتے ہیں، جو کہ ایک حماقت ہے۔
اس لئے تمام سائیکالوجسٹ اس بات پہ زور دیتے ہیں کہ ہم اپنی باتوں کا تجزیہ کریں، خاص کر اگر ہم کسی کے مثبت جذبے کو اس کی انٹینشن یا کردار جانے بغیر منفی سے تعبیر کر رہے ہیں تو اپنی تصحیح کریں۔ ہمارے تمام ریلیشن شپس مختلف چیلنجز سے گزرتے ہیں حتی کہ ہم صریح غلطی پہ ہوتے ہیں مگر ہمارا دماغ ایسے ایسے دلائل گھڑتا ہے کہ ہمیں وہ غلطی بھی ایک درست قدم لگنا شروع ہو جاتی ہے۔ ہمیں اس بات سے اجتناب برتنا چاہیے اور خود کو اور خود کے احساس محرومیوں کو زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔