Nizam e Taleem
نظامِ تعلیم
ہمارے نظام تعلیم میں جو سب سے بڑی خامی مجھے نظر آئی اور مجھے اپنے لئے محسوس ہوئی وہ پراجیکٹ بیسڈ لرننگ ہے۔ میری زیادہ تر ابیلٹیز ایک پراجیکٹ بنا کر چلنے والی تھی مگر مجھے ریسورسز اور موٹیویشن کی بجائے کتب رٹنے کو ملیں اور مجھے ابھی بھی دکھ ہوتا ہے کہ ویسی تعلیم میں کیوں نا حاصل کر پایا؟ میری صلاحتیں کیوں ضائع ہوئیں؟
ہماری حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک کمیونٹی پراجیکٹ پیش کرنے کے بعد دسویں اور بارھویں جماعت پاس کرنا لازمی بنائیں۔اسکے علاوہ اپنے بیچلر اور ماسٹر لیول کی ہر یونیورسٹی کیساتھ ایک انڈسٹری اٹیچ کریں جس میں بچوں کو نوکری کرنے کا موقع ملے اور وہ باعزت طریقے سے اپنا خرچہ افورڈ کرسکیں۔
بچوں کو جینے کی آزادی دینا سکھائیں۔ ہم نے چھٹی سے لیکر آٹھویں تک عربی بطور لازمی کتاب پڑھی تھی اور آج ہم میں سے کسی کو بھی عربی کی وہ ایک زیر یا زبر تک یاد نہیں جو اس سلیبس میں پڑھی۔ نتیجتا نا دین ملا نا دنیا ملی، کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
اسکے مقابلے میں اگر وہیں دسویں اور بارھویں کلاس کو ایک ایسے پراجیکٹ کی بنیاد پہ پاس کرنا ضروری قرار دیا جاتا جس کی مدد سے مقامی لوگوں کی کوئی مدد ہو سکے، جیسا کہ دیہاتی سکولز میں گاؤں کی صفائی اور جدید ڈسٹ بن ڈیزائن کرنے کا پراجیکٹ ہو یا کسی غریب گھرانے کی مدد کے لئے بچوں کا ایسی مشین بنانا جس سے وہ کپڑے سی سکے مگر وہ مقامی طور پہ سستی بنی ہو، جیسے پراجیکٹ ہوتے تو ہم بہت کچھ بدل سکتے تھے۔
اسی طرح بارھویں کلاس میں لاکھوں بچے فقط چھ ہزار میڈیکل اور تین ہزار انجینرنگ سیٹوں کے پیچھے دوڑتے ہیں ان کی بجائے ان کو کچھ ایسے پراجیکٹ کرائے جاتے جن کی مدد سے یہ کچھ نیا سیکھیں اور اپلائیڈ سائنس میں جا کر کچھ نیا کرنے کا سوچیں تو بہت کچھ بدل سکتا ہے۔
اس وقت بیچلر اور ماسٹر لیول کے ننانوے فیصد بچے اپنے باپ یا بڑے بھائی کی کمائی پہ پڑھ رہے ہیں کیونکہ وہ نوکری کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے لئے کوئی باعزت روزگار نہیں ہے۔ صرف ٹیچنگ کا آپشن بچتا ہے جس سے وہ ماہانہ دو سو گھنٹے ذلیل و خوار ہونے کے صرف دس ہزار لے پاتے ہیں۔ جبکہ باہر کے ممالک میں ایک بیچلر لیول کا بچہ اتنے پیسے تین دنوں میں فقط دس گھنٹے کام کرکے کما لیتا ہے۔
آپ حساب لگا لیں کہ حکومت نے مرغی پال اور کٹا پال سکیم پہ بلا جھجک پیسہ جھونکا اور آج ڈھائی سال بعد اسکا نتیجہ منفی میں آ رہا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آج انڈہ بیس روپے کی بجائے پانچ کا ملتا کیونکہ ایک مرغی سال میں 200+ انڈے دیتی ہے اور حکومت نے پتا نہیں کتنے لاکھ مرغیاں بیچیں اور نتیجہ ہمارے سامنے صفر کی بجائے منفی میں ہے اور یہ ہمارا منہ چڑا رہا ہے۔
اس کے بجائے اگر حکومت کسی یونیورسٹی کیساتھ اٹیچ سافٹ وئیر ہاؤس بنا دیتی یا انڈسٹری لگا دیتی تو آج ایک سال بعد وہ اربوں کا زرمبادلہ کما کر اور ہزاروں بچوں کا روزگار لگا کر منافع دے رہا ہوتا۔
اس سے پہلے حکومت پنجاب نے شہباز شریف کی زیر قیادت ارفع کریم ٹاور اور ای پنجاب جیسی سکیموں سے پاکستان کو فری لانسنگ کی صنعت میں عالمی سطح پہ چوتھے نمبر پہ لایا اور ان سکیموں کی وجہ سے کئی نوجوانوں نے کڑوڑوں روپے کمائے۔ اور آج اربوں ڈالر پاکستان آرہے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ بہت سے نوجوانوں نے یہ ہنر سیکھا اور انہوں نے مرغیاں پالنے اور انہیں بھون کر کھانے کی بجائے انٹرنیشنل مارکیٹ میں نوکریاں کیں۔
مگر موجودہ حکومت تعلیم کیساتھ کیا کر رہی ہے؟بجائے کچھ اچھا کام کرنے کے وہی جذباتی کام کئے جا رہے ہیں۔ ہمیں مسئلہ عربی سے نہیں ہے مسئلہ کو ایجوکیشن بند کرنے سے بھی نہیں ہے مسئلہ اس دقیانوسی سوچ سے ہے جو بغیر کسی آؤٹ کم کے منصوبے حکومت کے کان میں ڈال دیتی ہے اور اس پر انرجی ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
پتا نہیں حکومت نے مرغی پال، کٹا پال، نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم اور اس جیسے مزید بوگس منصوبے کس طبقے کو نوازنے کے لئے شروع کئے لیکن یہ بات ماننا ہوگی کہ ہیومن ڈویلپمنٹ کے سلسلے میں اس حکومت کا کام بالکل صفر ہے۔اسی طرح روحانیات پہ تین نئی یونیورسٹیاں کھڑی کرکے کھربوں روپے سمندر برد کر دئیے ان کا نتیجہ صفر بٹا صفر ہوگا مگر محض مذہبی ووٹ گھیرنے اور اپنے قریبی لوگ خوش کرنے کی خاطر اتنا پیسہ بہا دیا جو کہ یوز لیس ہے۔
اسی طرح جو لوگ پرانی حکومت کو کہتے ہیں کہ سڑک بنانے سے قومیں نہیں بنتی ان کو یہ تک نہیں پتا کہ ہماری اربوں ٹن اجناس اور سبزیاں پہلے ایسے ہی ضائع ہو جاتی تھی کیونکہ کسان کو منڈی تک آسان رسائی نا تھی۔ اسی طرح زیادہ بجلی پیدا کرنے پہ رویا جا رہا ہے جبکہ صنعت چلنے پہ کریڈٹ لئے جا رہے ہیں جبکہ وہیں اگر پچھلی حکومت اتنی زیادہ بجلی پیدا نا کرتی تو آج آپ کی انڈسٹری تیز کیسے ہوتی بلکہ چلتی ہی کیسے؟
خیر تنقید کی بجائے دعا ہے کہ حکومت چھیاسٹھ فیصد آبادی کے روزگار کے لئے کوئی نئی انڈسٹریز لگانا شروع کرے یا انویسٹرز کو ٹیکس میں رعایت دیں تاکہ وہ کاروبار بنگلہ دیش منتقل کرنے کی بجائے یہاں نئے روزگار لگا سکیں۔
ہمیں اپنے بچوں کو سکولز میں زندگی جینے کو سکھانا ہوگا۔ کیسے ایک سکول کے بچے اپنے اپنے محلے اور گاؤں کو صاف ستھرا اور ترقی یافتہ بنا سکتے ہیں یہ بتانا ہوگا۔ اس ضمن میں ذہن میں ہزاروں پراجیکٹس ہیں مگر ان کو سنے کون ان پہ عمل کرائے کون؟