Nergis Mavalvala
نرگس مالوالہ
ایم آئی ٹی اس وقت دنیا کی صفِ اول کی یونیورسٹی ہے۔ رینکنگ میں یہ اس وقت پہلے نمبر پہ براجمان ہے۔ یہاں کا طالب علم ہونا کسی اعزاز سے کم نہیں۔ یہ یونیورسٹی سمندر سے لیکر صحراؤں تک اور صحراؤں سے لیکر ستاروں اور تاروں تک تحقیق کرنے میں اپنا مقام رکھتی ہے۔
نرگس مالوالہ پاکستانی آسٹروفزسسٹ ہیں۔
آسٹروفزسسٹ کون ہوتا ہے؟
اس بات کو یوں سمجھ لیں کہ وہ شخص جو تاروں اور ستاروں کی فزکس کو سمجھ کر بگ بینگ جیسے مظہر جس سے کائنات وجود میں آئی اور اب تک جتنا کچھ کائنات میں ہو رہا ہے ان سب کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ آسٹروفزسسٹ کہلواتا ہے۔
کششِ ثقل اجسام کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ مگر یہ طاقت کس شکل میں موجود ہے ہمیں علم نہیں تھا۔ سو سال پہلے آئن سٹائن نے کہا تھا کہ کشش ثقل لہروں کی شکل میں ہے۔ جنہیں ہم گریوٹیشنل ویوز کہتے ہیں۔ لیکن ہمیں سو سال تک یہ کنفرم نا ہوسکا۔
دو ہزار پندرہ میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ان لہروں کو دریافت کر لیا۔ فخر کی بات یہ تھی کہ نرگس اس ٹیم کا حصہ تھی۔ نرگس کی آسٹروفزکس میں خدمات قابلِ تعریف ہیں اور ان کی تحقیق ہمیں بہت کچھ نیا بتا چکی ہے۔
ایم آئی ٹی نے نرگس کو MITs School of Science کا ڈین بنایا ہوا ہے۔ یہ سکول اتنا باوقار ہے کہ دنیا کی زیادہ تر نئی سائنسی تحقیق کے اعزاز کا سہرا اس کو چلا جاتا ہے۔
ایسے میں نرگس جیسے ہمارے ملک کے چہرے کی قدر کرنا بنتی ہے۔ اور ہمیں اپنی بیٹیوں کو بلند خواب دیکھنا سکھانا ہوگا وہ خواب جو اس کائنات کے وجود کی گتھی سلجھا سکتے ہیں۔
کیونکہ اس کائنات میں عورتوں کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا مردوں کا ہے۔