Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaigham Qadeer
  4. Nafsiyati Awariz Aur Mazhab

Nafsiyati Awariz Aur Mazhab

نفسیاتی عوارض اور مذہب

بھلے وقتوں میں دیومالائی داستانیں دیومالائی داستانیں ہی کہلوایا کرتی تھی اور سیانے بچے بالوں کو ڈرانے کے لئے ان کا نام لیتے تھے اور بڑے خود ہی سمجھ جاتے تھے کہ یہ سب جھوٹ ہے اور وہ اس بات کو اگنور کر دیتے تھے۔

ایسے ہی کچھ لوگ جو شیزوفرینک ہوتے تھے یا پھر دوسرے دماغی عارضوں میں مبتلا ہوتے تھے ان کو بھی سیانے پڑھے لکھے گھرانوں والے دماغی طور پر ابنارمل شخص کہہ کر اگنور کرتے تھے۔

وہیں پر یہ شیزوفرینک لوگ جب کسی گاؤں دیہات میں جاتے تھے تو وہاں کے سادہ لوح لوگوں کو اپنی باتوں میں لگا کر بدھو بنا لیتے تھے اور اگر یہ لکھنے لکھانے کے عادی تھے تو وہ عجیب و غریب کہانیاں لکھتے تھے جنہیں آج پڑھتے ہوئے ہنسی آتی ہے۔ لیکن وہ زمانے سادہ تھے سو عام گھریلو شخص ان باتوں کو قصے کہانی کی بجائے حقیقت سمجھ لیتا تھا۔

اب ہندوستان کا چلن یہ ہی رہا ہے کہ یہاں پر روحانیات کو دنیاوی علوم پر غیر ضروری ترجیح دی جاتی ہے۔ اس بات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہندوستان میں نفسیات کے علم پر کبھی تحقیق ہوئی ہی نہیں اور اگر ہوئی بھی تو روحانیات سے متاثر شدہ، علم و تحقیق کی اس کمی کو کچھ لوگوں نے اپنے حق میں استعمال کیا اور انہوں نے ان نفسیاتی عوارض کا "علاج" کرنا شروع کر دیا۔

یہ نفسیاتی عوارض مختلف طرح کے تھے۔ عموما یہ کلسٹر کی شکل میں علامات رکھتے ہیں۔ ایک مرض کی علامات دوسرے مرض سے ملتی ہیں۔

جیسا کہ شیزو فرینیا یا پھر سکزوفرینیا ہے۔ اس میں ایک عام شخص کو ہالوسینیشن ہوتی ہے۔ مطلب اس کو غیر مرئی اشیا یا تو دکھائی دیتی ہیں یا سنائی دیتی ہیں اور اگر اس کا علاج نا کیا جائے تو اس سے باتیں بھی کرتی ہیں اور کئی لوگوں کی تو اس مخلوق سے دوستی بھی ہے۔

وہیں پر بارڈر لائن پرسنالٹی ڈس آرڈر ہے اس کی بھی ابتدائی علامات یہی ہیں کہ مریض کو سائیکوسس ہوتا ہے اس کے ذاتی تعلقات نہیں بن پاتے اور اس کو اپنے احساسات پر قابو نہیں ہوتا۔ اوپر سے دیکھیں تو دونوں ایک ہی لگیں گے لیکن نفسیات میں ان دونوں کا علاج مختلف ہے۔

قریب قریب دس سے زائد ایسے مختلف نفسیاتی ڈس آرڈر ہیں جن میں مریض کو ہالوسینیشنز یا پھر غیر مرئی اشکال دکھائی دیتی ہیں اور وہ ان سے بات چیت بھی کرتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک ڈس آرڈر کا علاج مختلف طرح کا ہے۔

لیکن ہندوستان میں نفسیات کے علم کی ترقی نا ہونے کی وجہ سے عطائیوں نے پھر اس میدان پر پنجے گاڑھ لئے اور اگر ہندو دھرم ہے تو ان نفسیاتی بیماریوں کو اس دھرم سے جوڑ دیا اور مسلمان ہیں تو اسلام سے جوڑ لیا۔ اسی طرح عیسائی (حتی کہ نفسیات کے عروج سے پہلے کے یورپئین عیسائی بھی) ان کو عیسائیت کی بتائی گئی witches سے جوڑتے ہیں۔

لیکن ہندوستان میں شدت پسندی یہ ہے کہ پوری عرب دنیا میں ان نفسیاتی عوارض کو عوارض سمجھ کر علاج کروایا جاتا ہے وہیں پر ہندوستان میں اگر کوئی کہے کہ جن نہیں چمٹے تو وہ اس کو اسلام کے دائرے سے نکال دیتے ہیں کہ تم قرآن پہ یقین نہیں رکھتے اور یہ بات عطائی مافیا کی کامیابی کی نشانی ہے کیونکہ مافیا ہمیشہ مذہب کا ہی استعمال کرکے پنجے گاڑھتا ہے۔

اب ان نفسیاتی عوارض جن کا علاج مکمل شفقت اور پیار ہے ان کو تشدد اور نفسیاتی خوف سے کیا جاتا ہے اور عموماََ ایسے گھرانوں کے والدین بھی سخت ہوتے ہیں اور ہر وقت پرتشدد ماحول یا جھگڑے والا ماحول بنا کر رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی علامات شدت اختیار کر جاتی ہیں۔ اب جب کوئی پیر فقیر ان لوگوں کا استحصال کرتا ہے تو یہ الگ نفسیاتی پریشر میں آکر ان علامات کو روک تو لیتے ہیں لیکن یہ ٹائم بم بندھ جاتا ہے اور وقت آنے پر ضرور پھٹ جاتا ہے۔

ہندوستان میں اس ضمن میں آج کل مزید ستم یہ ہوا ہے کہ پہلے یہ پیر جوتشی لوگ تھے جو کہ فقط الگ قسم کے حلیے میں علاج کرتے تھے اور بہت سے لوگ ان کو برا بھی سمجھتے تھے۔ لیکن یہاں اب یونیورسٹیوں کے ڈراپ آؤٹس یوٹیوب چینلز بنا کر پینٹ کوٹ پہنے ان نفسیاتی عوارض کو اور ان نفسیاتی عوارض کے ساتھ بات کرتے نظر آتے ہیں اور سائنس کی مدد سے ان کو گھسیٹ کر سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں جبکہ یہ باتیں جھوٹ کا چربہ ہوتی ہیں۔

جیسا کہ بہت سے یوٹیوبر جو روحانیات پر سائنس کی مدد سے گفتگو کرتے ہیں اور اپنی کوئی دیومالائی داستان بتا رہے ہوتے ہیں ان کو اگر کسی سائیکالوجسٹ کے ساتھ بیٹھ کر سنا جائے تو وہ ان کے ایک ایک جملے کا اسکین کرکے آپ کو بتا سکتا ہے کہ یہ شخص اپنی ہالوسینیشنز بتا رہا ہے۔

لیکن چونکہ انٹرنیٹ پر کسی کا کنٹرول نہیں ہے اس لئے اب یہ لوگ کافی مقبول بھی ہو رہے ہیں ان کی ہالوسینیشن پہ مبنی باتوں کو نوجوان "سائنٹفک" سمجھ کر مان بھی رہے ہیں جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ نفسیات کے علم میں صدیوں سے پیچھے رہ جانیوالا ہندوستان آج بھی صدیاں پیچھے ہی ہے اور اس کے نفسیات میں آگے جانے کے امکانات نا ہونے کے برابر ہیں۔ کیونکہ ہم روحانیات سے جڑا کلچر ہیں اور ایسے کلچر میں نفسیات پر تحقیق ہونا نا ممکن ہے۔

جبکہ سعودی، اماراتی، قطری، مصری، ترک، ایرانی اور کویتی ادارے مسلمان ہوتے ہوئے بھی نفسیات میں بہت اعلی تحقیق کر رہے ہیں اور وہاں نفسیاتی عوارض کا علاج کوئی پیر فقیر نہیں کرتا بلکہ پراپر ماہرین نفسیات کرتے ہیں۔

Check Also

Thanda Mard

By Tahira Kazmi