Thursday, 10 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaigham Qadeer
  4. Masoom Zehan, Nasal Parast Ban Gaye

Masoom Zehan, Nasal Parast Ban Gaye

معصوم ذہن، نسل پرست بن گئے

جین الیٹ ایک ایلیمنٹری سکول ٹیچر تھی۔ لیکن یہ صرف ایک سکول ٹیچر ہی نہیں بلکہ نفسیات کے علم کو جاننے کا شوق رکھنے والی انسان تھی۔ لیکن ایلیٹ اپنے بچوں کو نسل پرستی کا موضوع ٹھیک طرح سے سمجھا نہیں پا رہی تھی۔ سو اس نے اپنے آٹھویں کلاس کے طلباء پہ ایک انوکھا تجربہ کرنے کا سوچا جو ان کو نسل پرست بنا سکتا تھا۔

آج بھی ہم اکثر مختلف خصائص کی بنیاد پہ چند انسانوں کو خود سے ممتاز سمجھتے ہیں۔ لیکن کیا ہمیں ہمارا معاشرہ ایسا کرنے پہ مجبور کرتا ہے؟ اس سوال کا جواب ابھی تلاش کیا جانا تھا۔ ایلیٹ کا تجربہ ابھی ہونا تھا۔

انسانی سماج کو سمجھنے کے لئے نفسیات کا علم بہت ہی ضروری ہے۔ انیسویں صدی تک نفسیات میں ایسے کئی تجربے کیئے گئے جنہیں آج ہم متنازعہ اور غیر انسانی شمار کرتے ہیں۔ یہ تجربہ نفسیات کے مضمون میں تو آتا ہے لیکن اسے کسی نفسیات کے ماہر نے نہیں انجام دیا بلکہ اس تجربے کو ایک ایلیٹ نامی ایک سکول ٹیچر نے انجام دیا۔

ایلیٹ اپنے آٹھویں کلاس کے طلباء کو یہ سمجھانے میں ناکام ہو رہی تھی کہ نسل پرستی کیا چیز ہوتی ہے۔ سو اس نے اس تجربے کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے اُس نے اپنے بچوں کو دو گروپس میں تقسیم کر دیا۔ ایک گروپ میں نیلی آنکھوں والے بچے لئے اور دوسرے گروپ میں بھوری والے۔ اور ان کو جعلی تحقیق دکھائی کہ جو بچے نیلی آنکھوں والے ہوتے ہیں وہ باقی سب سے ممتاز ہوتے ہیں۔

کچھ ہفتوں کے بعد ایلیٹ نے ان بچوں کو علیحدہ کیا۔ لیکن یہ تجربہ بہت سے بچوں کے لئے زندگی بدلنے والا تجربہ ثابت ہوا اور وہ حقیقت میں سمجھنے لگ پڑے کہ واقعی نیلی آنکھوں والے بچے باقی سب سے ممتاز ہوتے ہیں اور ان کی قدر کرنی چاہیے۔

یہ ایک حقیقت ہے ہمارے بچوں کا دماغ ابتدائی سالوں میں تیزی سے ہر وہ چیز سیکھنے کی کوشش کرتا ہے جو اس کو معاشرے میں رہنے کے قابل بنا سکے۔ سائنس میں اس کو مرر نیورانز میں شمار کرتا ہے۔ کہ ہم جو بھی حرکت کرتے ہیں ایک بچہ اس حرکت کو من و عن نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بالکل ویسا ہی بن جانے کی تگ و دو میں ہوتا ہے۔ حتی کہ وہ آپ کے بولتے ہوئے لب ہلانے کے انداز کو بھی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

ہمارا دماغ ایک پیٹرن کے تحت کام کرتا ہے اور وہ یہ پیٹرن معاشرے کے باقی لوگوں کی حرکات کو مدنظر رکھ کر بناتا ہے جیسا کہ لٹل البرٹ تھا جب اس کے سامنے سفید چوہا لایا گیا اور شور کیا گیا تو وہ رونے لگ پڑا اور بار بار یہ حرکت کرنے پر اس کے دماغ میں یہ پیٹرن بیٹھ گیا کہ سفید رنگ دیکھ کر رونا ہے تو وہ ہر سفید رنگ کی چیز دیکھ کر رونا شروع ہوگیا۔

اسی طرح اس تجربے میں جب ٹیچر نے بچوں کو جعلی تحقیقی پیپر دکھائے تو وہ بھی یہی سمجھنے لگے کہ یہ حقیقت ہے اور وہ انجانے میں نسل پرست بن گئے۔

انہی وجوہات کی بناء پہ اقوامِ متحدہ نے ایک خاص عمر تک بچے کو ہر طرح کا علم دینے کا چارٹر پاس کر رکھا ہے۔ تا کہ وہ ہر چیز کو جان کر ان کا مطالعہ کرکے آگے بڑھے یہ نا ہو کہ وہ ایک جیسا لٹریچر پڑھ کے متشدد ذہنیت والا انسان بن جائے۔ جیساکہ اس تجربے کے بچے تھے۔

اسی طرح کریٹیکل تھنکنگ جیسا پیچیدہ موضوع ہے وہ بچے جو صرف نصابی کتب پڑھتے ہیں ان میں کریٹیکل تھنکنگ کی صلاحیت بہت ہی کم ہوتی ہے وہ صرف ایک طرح کی چیز پڑھ کر اس کو سچ مان لینے کی عادت بنا لیتے ہیں سو وہ تنقیدی سوچ کی طرف نہیں جا پاتے۔

وہیں پر وہ بچے جو مختلف طرح کا علم رکھتے ہیں ان کے سوال اٹھانےا ور سوال حل کرنے کی صلاحیت باقی کے تمام بچوں سے الگ ہوتی ہے۔ یہی بچے بعد میں کلیدی عہدوں کی طرف جا پاتے ہیں۔

Check Also

Bache Samajh Jaate Hain

By Saira Kanwal