HEC Ki Tabahi Ka Noha
ایچ ای سی کی تباہی کا نوحہ
پاکستان میں کچھ عرصہ پہلے تک فقط ساٹھ سے ستر سرکاری یونیورسٹیاں تھی لیکن پھر انتخابات جیتنے کی خاطر دو ہزار چودہ سے لیکر اٹھارہ کے دوران اور اس کے بعد بائیس سے لیکر چوبیس کے دوران بے تحاشہ یونیورسٹیاں کھولیں گئی اور یوں ان یونیورسٹیوں کی تعداد ایک سو ساٹھ سے تجاوز کر گئی ہے۔
ستم یہ ہے کہ ہر نئے شہر کے دورے کے دوران وزیراعظم یا پھر کوئی بھی شخص وہاں یونیورسٹی بنانے کا اعلان کرکے زمین مختص کر دیتا ہے اور اس بارے میں کوئی مکمل تحقیق نہیں کی جاتی۔
اس وقت ان یونیورسٹیوں کو جنہیں بغیر کسی پلاننگ کے فقط سیاسی مفادات کی خاطر بنایا گیا تھا پانچ سو دس ارب رپوں کی اشد ضرورت ہے۔ یہ رقم اساتذہ کی تنخواہ سے لیکر یونیورسٹیوں کے اخراجات تک ہر کام کے لئے چاہیے لیکن گزشتہ تین سالوں سے ایچ ای سی کا بجٹ پینسٹھ ارب سے بڑھ نہیں پایا ہے۔
2017 میں ایچ ای سی کا بجٹ پینتیس ارب تھا جو کہ اگلے سال پچپن ارب ہوا اور دو ہزار اکیس کے پی ٹی آئی حکومت کے آخری بجٹ تک یہ چونسٹھ ارب ہوگیا تھا اور تب تک ایچ ای سی کو ستر ارب سے اوپر رقم کی ضرورت تھی لیکن یہ فرق اتنا بڑا نہیں تھا کیونکہ تب یونیورسٹیوں کی تعداد 128 تھی سو خرچے زیادہ نہیں تھے۔
لیکن گزشتہ دو سالوں میں یہ نمبر 170 تک پہنچ گیا ہے کیسے؟ کونسا خزانہ ہاتھ لگا تھا؟ کسی کو نہیں علم بس خالی خولی دعوے اور وعدوں کے بعد سب ارینج کر دیا۔
اس سال ایچ ای سی کا دوبارہ سے بجٹ پینسٹھ ارب ہی مختص کیا گیا ہے جبکہ ایچ ای سی کی ڈیمانڈ ایک سو اٹھائیس ارب کم سے کم تھی۔ مطلب کہ آدھے سے بھی کم پیسوں میں ایچ ای سی خرچے بھی پورے کرے گی اور تعلیم بھی دے گی۔ یہاں سے تعلیم کے معیار میں گراوٹ کا سفر شروع ہوتا ہے۔
جہاں ایک کلاس میں چالیس بچے بھی زیادہ ہوا کرتے تھے وہاں اب ایک ایک کلاس میں سو یا ڈیڑھ سو بچہ ہے اور جہاں اچھے وقتوں میں ایک پوزیشن کے لئے ہزار لوگوں کا مقابلہ تھا وہاں اب دس ہزار کا ہوا کرے گا اور یہاں سے فضول اور ناکارہ ڈگریوں کا آغاز ہوتا ہے اور ایسے گریجویٹس کا جن کے والدین نے حق حلال کی کمائی اور خوابوں کے سمجھوتے پر اتنا خرچہ کیا تھا اور اب وہ بیچارے اس سب کے ساتھ صرف مایوسی لے رہے ہیں۔
طلباء ماسٹرز کے بعد پی ایچ ڈی فقط اس امید پر کر رہے ہیں کہ کیا معلوم اس بنیاد پر اچھی جاب مل جائے لیکن ماسٹرز کے بعد کچھ فیلڈز جیسا کہ فارماء، بائیو اور پیور سائنس میں یورپ اور امریکہ میں مقابلہ ناکوں ناک ہوتا ہے تو پاکستان جہاں ریسرچ اور فارما ہے ہی نہیں وہاں کیا بیڑہ غرق ہوگا سوچا جا سکتا ہے۔
ان شارٹ ایچ ای یا پھر پاکستانی ہائیر ایجوکیشن کی تباہی پر ہزار صحفات پر نوحہ لکھا جائے تو بھی کم ہوگا لیکن میں ان سب والدین جن کے بچے یونیورسٹیوں میں جا رہے ہیں، کے آنیوالے اور متوقع ملنے والے غم میں برابر کا شریک ہوں اور فقط دعا ہی کر سکتا ہوں کہ ان کے بچے کو بی ایس کے فورا بعد جاب مل جائے ورنہ بی ایس کے بعد بھی کال سینٹر جانے کے لئے بچے کو ذہنی طور پر تیار رکھیں۔
اپنے بچوں کو بی ایس کی بنا پر کم سے کم پاکستان میں اچھی پوزیشن لینے کی امید کبھی مت دیں۔