Hamara Dehi Culture
ہمارا دیہی کلچر
اب سال گننے پہ آؤں تو خود کو یوں لگتا ہے کوئی بڈھا بابا بن گیا ہوں لیکن آج سے چودہ سال پہلے انوکھا لاڈلا نامی ڈرامہ پی ٹی وی پہ آیا تھا جس میں پنجابی تہذیب کو دکھایا گیا تھا۔ یہ ڈرامہ بالکل وہی لگا جو ہماری تہذیب تھی۔ لیکن ان چودہ سالوں میں پنجابی تہذیب بالکل گم سی ہوگئی ہے۔ اب زرد پتوں کا بن نامی ڈرامہ دیکھا ہے تو پھر سے یاد آ رہا ہے کہ کبھی ہمارے گاؤں ایسے ہوا کرتے تھے۔
اب تو ڈرامہ میں دکھائے گئے گھر کسی بھی گاؤں میں گنتی کے رہ گئے ہیں اور انہی کے رہ گئے ہیں جن کو ڈرامے میں دکھایا گیا ہے مطلب مسلیوں، موچیوں یا ایسی ذاتوں کے جنہیں پنجاب میں عموما نیچ ذات یا پھر لوئر کاسٹ سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان کے آباء و اجداد کے پاس اپنی زمینیں نہیں تھی۔
وہیں پر کچے گھر؟ تو جناب اس وقت سیالکوٹ سے لیکر گجرات اور منڈی بہاؤالدین اور دوسری طرف گجرانوالہ سے لیکر نارووال اور لاہور تک گھروں کی ڈائنامکس بدل چکی ہیں۔
بلکہ آپ کو سیالکوٹ سے شروع ہو کر گجرات، کھاریاں اور منڈی بہاؤالدین تک کچے گھر بہت ہی کم نظر آئیں گے کیونکہ ان کے پتر یا تو عرب ممالک میں سیٹ ہیں یا یورپ، اور ان کے سب گاؤں اب ایسی کوٹھیاں رکھتے ہیں کہ بھئی ڈیفنس وغیرہ پیچھے رہ جائیں۔
وہیں پر ایسے آؤٹ سکرٹ یا کچے علاقے اور ان کے گھر ہمیں ابھی صرف شکرگڑھ کی دیہی سائیڈ، ہیڈمرالہ سے لیکر لاہور تک نہروں کو لگنے والی سائیڈ یا پھر لاہور سے دوسری طرف ملتان والی سائیڈ پر نظر آتے ہیں اور انہی دیہاتوں میں تہذیب زندہ ہے۔ ان کی پنجابی سننے لائق ہوتی ہے۔ ان کے میلے دیکھنے لائق ہوتے ہیں اور ان کی شادیاں، وہ بھی اٹینڈ کرنے لائق ہوتی ہیں۔
عموما زمیندار گھرانے گرمیوں میں شادیاں کرتے ہیں تو ان کی شادیوں پہ جانے کے لئے نہانے کی ضرورت نہیں پیش آتی بلکہ آپ وہاں بیٹھے بیٹھے گرمی سے خود نہا لیتے ہیں۔ اور کھانا کھلنے پر ارے واہ واہ اور ابھی بھی ان علاقوں میں وہی مرغوں کی لڑایاں اور ان لڑائیوں پر انسانوں کی لڑائیاں بھی نارمل ہے۔
وہیں پر مجھے یہ علاقے پسند ہیں تو اپنی زبان کی وجہ سے کہ انہوں نے ابھی تک احساس کمتری کے مارے اردو کو اپنا سب کچھ نہیں سمجھا بلکہ پنجابی کو بھی بولتے ہیں اور مجھے یاد ہے جب ان دیہاتوں کو دیکھنے جایا کرتا تھا تو وہاں کے لوگ شہری بابو کہہ کر اردو میں بات شروع کر دیتے تھے اور پنجابی بولنے پر ان کمفرٹیبل ہوتے تھے۔ لیکن ہم پھر بھی پنجابی بولا کرتے تھے۔
اسی طرح یہ ڈرامہ بھی گو اردو میں فلمایا گیا ہے لیکن ڈائریکٹر نے کافی اچھے انداز میں پنجابی کلچر دکھانے کی کوشش کی ہے۔ مجھے تو یہ پسند آ رہا ہے۔
آپ کا پتا نہیں!