Talent
ٹیلنٹ
نِک ویلوٹ ایک انتہائی کامیاب پرائیویٹ سراغ رساں تھا جو کہ انتہائی عام چیزوں کو بھاری معاوضے کے عوض چوری کرنے کا کام کرتا تھا۔ جیسے کوئی ماچس، برتھ ڈے کارڈ، ٹُوتھ برش، پرانا اخبار وغیرہ وغیرہ۔ عام طور پر ایسی اشیاء کے پیچھے کسی جرم کی پردہ پوشی کرنا مقصود ہوتی جسے نِک چوری کے دوران منظر عام پر لا کر مجرم کو پکڑوا دیتا۔ یہ سسپنس ڈائجسٹ کا ایک معروف مستقل سلسلہ تھا اور ہمارے لئے ڈائجسٹ خریدنے کی ایک وجہ۔
انجنئیرنگ یونیورسٹی لاہور پہنچے تو ہمارے ساتھ بھی ایک نک ویلوٹ صاحب پڑھ رہے تھے جو کہ اچھے خاصے کھاتے پیتے گھر سے تعلق رکھتے تھے لیکن چھوٹی چھوٹی چیزوں کو چیلنج سمجھ کر دوستوں سے بیٹ لگا کر چراتے اور پھر واپس رکھ دیتے۔ ایک دفعہ یونیورسٹی کی سینٹرل لائیبریری سے ایک ریفرینس بک کو غائب کرنے کا چیلنج ملا جو کہ بہت موٹی کتاب تھی اور کسی اسٹوڈنٹ کو گھر کے لئے ایشو نہ ہوتی تھی۔ کم از کم ہزار صفحات یا اس سے بھی زیادہ موٹی ہوگی اور اسے صرف سینٹرل لائبریری میں ہی بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت تھی۔
نِک صاحب نے دوستوں سے ایک ہفتے کا وقت مانگا اور ایک ہفتے کے بعد کتاب ہاسٹل میں ان کے کمرے میں موجود تھی۔ پانچ سو کی بیٹ وہ جیت چکے تھے جب کہ اس وقت ہاسٹل کے میس کا ماہانہ خرچہ زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین سو روپے تھا۔ بہت بعد میں پتہ چلا کہ موصوف نے کتاب کو چھ برابر ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ایک ایک ٹکڑا روزانہ غائب کرتے رہے اور پھر مشن مکمل ہونے کے بعد پرانی انار کلی سے جا کر جلد کروا لی۔
تاہم بعد میں انہوں نے وہ کتاب لائبریری جا کر واپس رکھ دی تھی۔ یونیورسٹی کیرئیر میں اس طرح کی متعدد وارداتیں ان کے کریڈٹ پر تھیں۔ یونیورسٹی سے فارغ ہو کر موصوف پھرتے پھراتے ایک حساس دفاعی ادارے میں نوکر ہو گئے اور پاکستان کو ٹیکنالوجی آف ٹرانسفر کا کام خوب محنت سے سر انجام دیتے رہے۔ اسے کہتے ہیں اپنی صلاحیتوں (ٹیلنٹ) کا مثبت استعمال۔