Soya Hua Jin
سویا ہوا جِن
یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ انڈیا کی سرحد سے داخل ہونے کے بعد 10 دن کا وقت گزرنے، پانچ سو کلومیٹر کا سفر طے کرنے اور بیس تیس کلومیٹر کی چوڑائی میں پھیل کر چلنے کے باوجود بھی ستلج سے ایک انتہائی خطرناک درجے کا بڑا سیلابی ریلہ پنجند بیراج تک پہنچا ہے۔ ایسا منظر اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ ماضی میں ستلج میں اگر کوئی بڑا ریلہ آتا تو یہ اردگرد کے علاقوں کو ڈبوتا پنجند تک پہنچنے سے پہلے پہلے ہی بہت کمزور ہوچکا ہوتا اور اس کا زور ٹوٹ چکا ہوتا۔ لیکن اس دفعہ کچھ مختلف ہوا۔
اس سال نہ صرف پانی کا بہاؤ 278,000 کیوسک کی انتہائی سطح کو پہنچا بلکہ 100,000 کیوسک سے زیادہ پانی کا بہاؤ تو پورے 13 دن دریا میں مسلسل چلتا رہا۔ ستلج میں 10 جولائی کو انڈیا کی طرف سے ایک لاکھ کیوسک پانی چھوٹے کے بعد ستلج کے اس سیلابی سیزن کا آغاز ہوا جس نے دریا کے کناروں پر بنے بندات کو توڑ کر ارد گرد کے علاقے کو غرقاب کردیا اور اگلے پورے مہینے میں مسلسل بارشوں اور انڈیا کے ڈیموں سے پانی کے اخراج کی وجہ سے یہ علاقے مسلسل زیر آب رہے۔
اگست کے تیسرے ہفتے میں آنے والے سب سے بڑے ریلے نے تو اتنی تباہی مچائی کہ دریا کے دونوں کناروں پر تقریباً 15 پندرہ کلومیٹر تک کا علاقہ بہت بڑے تالاب کا منظر پیش کرنے لگا اور تیس کلومیٹر چوڑا یہ تالاب آہستہ آہستہ صوبہ پنجاب میں بہاولپور کی طرف سرکنے لگا۔ گنڈا سنگھ سے لے کر پنجند تک پانچ سو کلومیٹر لمبی اور دس کلومیٹر چوڑی اس دریائی پٹی پراب کوئی جاندار سانس نہیں لیتا۔ یہ انسانوں، جانوروں اور فصلوں سے بالکل خالی ہوچکی۔ لوگ چالیس پچاس دنوں سے بے گھر ہیں۔
ستلج ایک سویا ہوا جن ہے جس نے اس سال اچانک انگڑائی لی ہے اس سال دریا اب تک 8 ملئین ایکڑ فٹ پانی بہا چکا ہے جو کہ تربیلا ڈیم سے زیادہ بنتا ہے لیکن ماہرینِ موسمیات کہتے ہیں کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں کیونکہ ستمبر کے شروع میں اور بارشیں متوقع ہیں اور مزید پانی آنے کی امید ہے جب کہ پہلا سیلابی پانی ابھی تک اسی طرح زمینوں میں کھڑا ہے۔
ستلج میں چونکہ کبھی کبھار ہی پانی آتا ہے لہذا لوگ بھی بے دھڑک ہوکر دریائی راستے میں مکانات اور دیگر تعمیرات کرتے گئے۔ دوسری مجرمانہ غلطی حکومتی اداروں نے کی کہ سیاسی بنیادوں پر ان دریائی زمینوں پر سڑکیں، پل، بجلی کے کھمبے اور دیگر سہولیات بہم پہنچاتے گئے جس سے آبادی کو ان دریائی زمینوں میں پھیلنے کی اور شہہ ملی حالانکہ حکومتی ریکارڈ کے مطابق یہ سارے سیلابی علاقے ہیں اور ان ہم اس کا خمیازہ اس تباہی اور بربادی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ اس سال کے سیلاب کے علاقے کی فلڈ زوننگ ہونی چاہئے اور آئندہ کے لئے ان علاقوں میں انسانی بستیوں کے لئے قوانین بننے چاہئیں۔
نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں ڈان اخبار کی خبروں سے مدد لی گئی۔