Mass Iftari
ماس افطاری
رمضان میں خصوصاً آخری عشرے میں ماس (بڑے پیمانے والی اجتماعی) افطاری میں شرکت کرنا ایک بہت دل گردے کا کام ہے۔ میرے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ ہر سال کم از کم چھ سات ایسی افطاریوں میں شرکت کرنا پڑتی ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ دفتر ٹائم ختم ہونے کے بعد بندہ گھر نہیں جا سکتا کیونکہ لاہور کی ٹریفک ایسی ہے کہ آپ چار بجے چھٹی کرکے گھر چلے جائیں تو پھر ساڑھے چھ بجے تک افطاری والی جگہ پر نہیں پہنچ سکتے لہٰذا مجبوراً میں تو دفتر میں ہی رک جاتا ہوں اور عصر پڑھ کر جائے افطاری کی طرف چل پڑتا ہوں۔
گھر جانے کی صورت میں بندہ کچھ دیر سستا کر تازہ دم ہو جاتا ہے لیکن افطاری کے لئے دفتر میں رکنے کی صورت میں کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہی کمر درد شروع ہو جاتی ہے اور جسم تھک جاتا ہے کیونکہ دن بہت لمبا ہو جاتا ہے۔ افطاری سے ایک گھنٹا پہلے دفتر سے نکل کر بے ہنگم ٹریفک سے گزرتے ہوئے مقامِ افطاری پر پہنچنا ایک اور مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ گھر میں افطاری بھی کجھور یا سادہ پانی سے کر لیتے ہیں یا پھر ساتھ فروٹ چاٹ بنا لیتے ہیں پکوڑوں سموسوں سے مکمل اجتناب۔ تاہم ماس افطاری میں رنگین شربت ہمراہ پکوڑے سموسے ایک لازمی جز ہوتے ہیں۔
میں گرمیوں میں بھی ٹھنڈا پانی پینے کا عادی نہیں ہوں لیکن باہرلی افطاری میں عموماً یخ ٹھنڈا شربت یا پانی سرو کیا جاتا ہے جو میں نہیں پی سکتا لہٰذا شدید پیاس کے باوجود ایک ایک سِپ کرکے پانی پیتا ہوں تاکہ پانی کچھ گرم ہو جائے۔ گھر میں لائٹ افطاری کی وجہ سے کھانا بھی کھایا جا سکتا ہے اور اس کے بعد کڑک چائے کا ایک کپ ساری تھکان دور کر دیتا ہے جس کے بعد عشا کی نماز کی تیاری شروع ہو جاتی ہے۔
تاہم ماس افطاری میں مغرب کی نماز جیسے تیسے ادا کرنے کے بعد کھانا سرو ہو جاتا ہے جو اکثر زیادہ تیل والا چکن قورمہ اور مصالحے دار بریانی ہوتی ہے اور ساتھ ٹھنڈی ٹھار سپرائٹ۔ آدھا وقت تو اس ٹینشن میں گزرتا ہے کہ افطار سے کیسے جلدی رخصت ہو کر محلے کی مسجد میں عشا کی نماز پر بروقت پہنچا جائے اور بالفرض محال پہنچ بھی جائیں تو دفتر میں بیٹھنے کی وجہ سے ہونے والی تھکن کی وجہ سے نماز پڑھنا اور تروایح مکمل کرنا ایک بہت بڑی آزمائش ہوتی ہے اور اکثر اگلے دن پھر یہی روٹین۔ اور اگر یہ طاق رات ہو تو عبادت کا بالکل مزہ نہیں رہتا۔