Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Aabi Saal Nama 2022 (2)

Aabi Saal Nama 2022 (2)

آبی سالنامہ (2)

اس سال جولائی کے شروع ہوتے ہی شمالی بلوچستان میں مون سون شروع ہوگئی، جس میں ژوب، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ، لورا لائی، با رکھان، ہرنائی، پشین اور کوئٹہ تک میں بارشیں شروع ہوگئیں۔ یہ عیدالاضحیٰ کے دن تھے۔ 6 جولائی سے شروع ہونے والی یہ بارشیں اگست تک جاری رہیں، جو کہ بلوچستان کے کیے ایک غیر معمولی صورت حال تھی۔

کیونکہ بلوچستان کے صرف مشرقی اضلاع ہی مون سون کی آخری حد ہیں۔ جس کے بعد ان کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔ تاہم اس دفعہ جنوبی بلوچستان میں بھی بارشوں نے تباہی مچا دی، جس میں آواران اور تربت جیسے علاقے بھی شامل تھے۔ کئی ڈیم اور بین الصوبائی رابطہ سڑکوں کے پُل ٹوٹ گئے۔ ہزاروں کلومیٹر سڑکیں سیلابی پانی کے ساتھ بہہ گئیں۔

جولائی کے تیسرے ہفتے تک سندھ بھی طوفانی مون سون کی زدیں آچکا تھا اور ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ بلوچستان اور سندھ میں ہونے والی اس سال کی مون سون اس لئے مختلف تھی کہ بارش کا ایک دورانیہ ختم ہوتے ہی دوسرا دور شروع ہو جاتا اور زمین جو پہلے ہی گیلی پڑی ہوتی، اس میں پانی سینچنے کی بجائے فوراً سیلابی صورت حال اختیار کر لیتا۔

دوسرے ایک دو اسپیل کی بجائے بارش کے چھ سے سات اسپیل ہوئے اور چند دنوں میں ہی پانچ چھ سالوں کے حجم برابر مینہہ برس گیا۔ محکمہ موسمیات کے مطابق معمول سے چھ گنا زیادہ بارشیں ہوئیں۔ یہ پہلی دفعہ ہو رہا تھا کہ سندھ میں دریائے کابل اور تربیلا سے چلے ہوئے سیلابی ریلے ابھی نہیں پہنچے تھے۔ لیکن صوبے کا بڑا حصہ بارشی پانی سے زیرِآب آچکا تھا۔

اسی دوران کوہِ سلیمان کے سیلابی ریلے تونسہ اور ڈی جی خان تاریخی تباہی لے کر آئے اور کئی بستیوں کو آنِ واحد میں اُجاڑ کر رکھ دیا۔ جولائی کے آخر تک کراچی کے لئے پانی ذخیرہ کرنے والا حب ڈیم بھر چکا تھا، لیکن حیرت انگیز طور پر مون سون کی سر زمین پنجاب میں معمولی بارشیں ہو رہی تھیں۔ اگست کے آخر (26 اگست) میں مون سون نے وادئی سوات میں تباہی مچادی اور دریائے سوات اپنے کناروں سے چھلک پڑا۔

دریا کنارے بنائے گئے بیشتر سیاحتی ہوٹل تنکوں کی طرح پانی بہنے لگے۔ کے پی میں کوہستان کی وادئی دبیر میں پانچ بھائیوں کی سیلابی ریلے میں پھنسنے کی ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں چار بھائی سیلابی ریلے کے ساتھ مدد پہنچنے سے پہلے ہی بہہ گئے۔ سندھ اور بلوچستان کے ملحقہ علاقوں پر 100 اسکوائر کلومیٹر رقبے پر سیلابی پانی نے عارضی جھیل بنا دی۔

جس کے دورے کے دوران اقوام متحدہ کے سیکرٹری بھی غمگین ہو گئے اور انہوں نے اس سیلاب کو "a monsoon in steroids" کہا۔ حکومت بھی جاگی اور سیلابی علاقوں میں فلاحی تنظیمیں متحرک ہوگئیں۔ صرف الخدمت کی طرف سے قائم کی گئی عارضی خیمہ بستیوں کی تعداد 40 سے تجاوز کر گئی۔ ان تباہ کن بارشوں کو عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ قرار دیا گیا۔

اور عالمی سطح پر پاکستان سے ہمدردی کے جذبات دکھائے گئے، کیونکہ پاکستان کا عالمی ماحول کو خراب کرنے والی گیسوں کے اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر تھا، لیکن یہ اس موسمی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہا تھا۔ سیلابوں سے پاکستانی معیشت کو 30 ارب ڈالر سے زیادہ نقصان ہوا، تین کروڑ سے زیادہ آبادی متاثر ہوئی، 2 ہزار سے زیادہ انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور 8 لاکھ سے زیادہ جانور ہلاک ہوئے۔

نومبر کے پہلے ہفتے میں مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونیوالی عالمی ماحولیاتی کانفرنس (COP27) میں مصر نے پاکستان کو اس کی مشترکہ صدارت پیش کی۔ پاکستان نے اس کانفرنس میں نمایاں ہو کر سامنے آیا۔ G77 کی سربراہ کے طور پر شرکت کی۔ پاکستانی وفد نے عمدہ طریقے سے اپنا کیس لڑا اور دریائے سندھ کی بحالی کے منصوبے کو عالمی سطح پر تسلیم کروانے میں کامیاب ہوگیا۔

تاہم اکتوبر سے دوبارہ خشک سالی والے حالات بننا شروع ہو گئے ہیں۔ سال کے آخری تین مہینوں میں معمول سے کم بارشیں ہوئی ہیں۔ شہری علاقوں خصوصاً لاہور کی فضا سموگ سے زہر آلود ہو چکی ہے۔ سال ختم ہونے کو ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت سندھ اور بلوچستان کے نشیبی علاقوں سے سیلابی پانی پچھلے چار مہینوں سے نہیں نکال سکی۔ کھجور، چاول اور کیلے کی فصل تو سیلاب نے پہلے ہی تباہ کر دی۔

اب کھڑے پانی میں گندم کی فصل بھی کاشت نہیں ہو سکتی۔ چشمہ رائٹ بنک کینال، کچھی کینال اور پٹ فیڈر کینال میں بھی سیلابی تباہی کے بعد بحالی کا کام ابھی تک نہ ہو سکنے کی وجہ سے نہری پانی نہیں چل رہا۔ کسانوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور یہ حالات ایک آنے والے دنوں میں خوراک کی قلت کا سنگین مسئلہ پیدا کر سکتے ہیں۔ دعا ہے کہ آنے والا سال پاکستان کے آبی وسائل کی بہتری کا سال ہو۔

Check Also

Jaane Wale Yahan Ke Thay Hi Nahi

By Syed Mehdi Bukhari