Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Usman Ghazi
  4. Tareekh Ka Mor

Tareekh Ka Mor

تاریخ کا موڑ

موجودہ سیاسی منظرنامے میں مسلم لیگ، ایم کیوایم اور جمعیت علمائے اسلام سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی بقا کی فکر ہے کہ اگر وہ ہارگئے تو ختم ہوجائیں گے، مسلم لیگ ن کا گڑھ جی ٹی روڈ ہو یا ایم کیوایم کے لئے کراچی کے شہری علاقے یا جمعیت علمائے اسلام کے لئے خیبرپختونخوا کی سرائیکی بیلٹ کے علاقے۔۔ ہر جگہ یہ سیاسی جماعتیں سخت مقابلے میں ہیں اور اسی وجہ سے ان کا فوکس اپنے گڑھ کہلائے جانے والے انتخابی حلقے ہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی کا معاملہ بالکل مختلف ہے، سندھ جہاں پی پی پی کی مضبوط گرفت ہے، یہاں جیالوں کو دور دور تک کوئی چیلنج نہیں تو پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت ان انتخابی حلقوں پر فوکس کررہی ہے، جہاں ان کی گرفت ہے جیسے کراچی کے شہری علاقے جہاں پی پی پی کی بڑھتی مقبولیت سے ایم کیوایم اپنی بقا کے خطرے سے لاحق ہے۔

اسی طرح ڈیرہ اسماعیل خان جئے بھٹو کے نعروں سے گونج رہا ہے اور جمعیت علمائے اسلام کی پوزیشن شدید خطرے میں ہے اور یہی حال پنجاب کا ہے کہ جہاں پی پی پی مسلم لیگ ن کے ناقابل تسخیر انتخابی حلقوں میں مسلسل شگاف ڈال کر اب تک اس نظرئیے کو قائم کرچکی ہے کہ پی پی پی پنجاب میں ایک مضبوط وجود رکھتی ہے۔

پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کو سزا کے بعد مختلف تبصرے ہورہے ہیں، ایک طبقہ فکر کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کو ہمدردی کے ووٹ ملیں گے، اگر بالفرض محال یہ بات درست بھی ہو تو ہمدردی کے یہ ووٹ کس کو ملیں گے؟ اگر یہ ووٹ ان آزاد امیدواروں کو ملیں گے جو پہلے سے ہی دوسری سیاسی جماعتوں سے رابطے میں ہیں تو اس ہمدردی کا عمران خان یا پی ٹی آئی کو تو کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔۔ اس ہمدردی کا مسلم لیگ ن کو ضرور فائدہ ہوسکتا ہے کہ اینٹی نواز ووٹوں کی تقسیم کی صورت میں شریف خاندان چوتھی بار وزارت عظمی پر قابض ہوسکتا ہے۔

آٹھ فروری محض عام انتخابات کا دن نہیں ہوگا، یہ دن تاریخ کا وہ موڑ بھی ثابت ہوگا جو پاکستان کے مستقبل کا تعین کرے گا۔

Check Also

Ghair Islami Mulk Ki Shehriat Ka Sharai Hukum

By Noor Hussain Afzal