Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Usman Ghazi/
  4. Mazhabi Ashrafia

Mazhabi Ashrafia

مذہبی اشرافیہ

مذہبی اشرافیہ ہم عام انسانوں کی زندگی کے ہر معاملے میں اپنی اتھارٹی اور مداخلت چاہتی ہے، ہم فاسٹ فوڈ کھائیں تو ان کی مرضی سے۔ ہم لباس پہنیں تو وہ ان کی رضا کے مطابق ہو اور ہم کرکٹ بھی اس وقت دیکھیں کہ جب وہ چاہئیں۔

کے ایف سی اور میکڈونلڈ کے بائیکاٹ کی کوئی لاجیکل وجہ نہیں، ہر ملک میں کے ایف سی اور میکڈونلڈ کے مقامی مالکان ہیں، جو منافع کا ایک مخصوص شیئر امریکا میں موجود کارپوریشن میں جمع کراتے ہیں، اسرائیل میں کے ایف سی چلانے والی مقامی کمپنی نے اسرائیلی دہشت گرد فوجیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ان کو یومیہ فاسٹ فوڈ دینے کا اعلان کیا تو جواباً پاکستان اور عرب ممالک سمیت اسلامی ممالک میں کے ایف سی چلانے والی مقامی کمپنیوں نے فلسطینیوں کی امداد کا اعلان کیا مگر مذہبی طبقے نے اس کارپوریٹ لڑائی میں فلسطینیوں کو امداد دینے والے مقامی کے ایف سی مالکان کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائے ان کی مخالفت کی تاکہ مولویوں کے انوسٹرز کچھ لوکل برانڈز کا فائدہ ہو۔

مفادات کی اس پوری جنگ میں عام آدمی میں مذہبی جذبات بھڑکا کر اسے پہلے اعلی معیار کے فاسٹ فوڈ سے دور کیا گیا اور اب کرکٹ سے بھی یہ کہہ کر دور کیا جارہا ہے کہ پاکستان سپرلیگ نے کے ایف سی اور میکڈونلڈ کی اسپانسرشپ لی ہے اور یہ فلسطین دشمنی ہے جبکہ تکنیکی طور پر پاکستان میں کے ایف سی کا ہر برگر خریدنا گویا فلسطین کو امداد بھیجنے کے مترادف ہے کیونکہ مقامی مالکان اپنے منافع میں سے فلسطین امداد بھیج رہے ہیں۔

اس سارے کھیل میں پیسے کی زبردست ریل پیل ہورہی ہے، کے ایف سی اور میکڈونلڈ کے متبادل کے طور پر جو لوکل برانڈز مارکیٹ میں ہیں، وہ یومیہ لاکھوں روپے کمارہے ہیں، اگر مولوی انٹرنیشنل برانڈز کی مخالفت بند کردیں گے تو ان کا دھندہ بھی بتدریج چوپٹ ہونا شروع ہوجائے گا۔

ہمیں حلوہ والے لباس پر اپنا جلوہ دکھانے والے مولویوں کے روئیے سے یہ علم ہوا کہ تمام مذہبی طبقہ ایک جیسی سوچ رکھتا ہے، حلوے والے لباس پر ابتدا میں مذہبی طبقہ معاملے میں ملوث مولویوں کے خلاف تنقیدی سوچ کا حامل تھا مگر جب انہوں نے دیکھا کہ اس معاملے میں عام لوگ مولویوں کے کردار پر سوال اٹھارہے ہیں تو مذہبی طبقے نے 360 کے زاوئیے میں اپنا مؤقف بدلا اور کہنا شروع کردیا کہ ساری غلطی اس عورت کی ہے کہ جس نے مشکوک لباس پہنا اور اس بات پر بھی عورت کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہئیے اور غلط سمجھنے والے مولوی بالکل درست ہیں، یہ سب دھندے کا معاملہ ہے، اگر مذہبی معاملہ ہوتا تو مس سعودی عرب رومی القحطانی کے لباس پر بھی تنقید ہوتی مگر مولوی وہاں اس لئے چپ ہیں کہ سعودیہ نے فورا ان کے فنڈز بند کردینے ہیں یا یہ ایسی تنقید کرکے سعودیہ نہیں جاسکتے اور پھر ایسے میں ان کی اپنی برانڈنگ خراب ہوجائے گی۔

مذہبی طبقے کا یہ رویہ منظم ہے، کے ایف سی کے فرائیڈ چکن سے میکنڈونلڈ کے برگر تک اور بابر اعظم کے چوکے سے ہمارے ملبوسات کے ڈیزائن تک پر یہ مذہب کے نام کا غلط استعمال کرکے دراصل اپنی سوچ مسلط کرنا چاہتے ہیں، دورِ حاضر میں ہم مسلمانوں کو ان انتہاپسندوں کی صورت میں ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے، جب تک یہ ہماری چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر پہرہ دیتے رہیں گے، امت مسلمہ آگے نہیں بڑھ سکتی۔

Check Also

Nineties Ke Ashiq

By Khateeb Ahmad