Election Az Khud Notice Case, Faisla Aur Ibham
الیکشن ازخود نوٹس کیس، فیصلہ اور ابہام
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے پنجاب اور خیبر پختونخواء میں انتخابات کے حوالے سے نو رکنی لارجر بنچ بنایا، جس سے دو ججز جسٹس اعجازالحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی نے رضاکارانہ طور پر خود کو علیحدہ کر لیا تھا جس کے بعد 23 فروری کو فیصلے میں بینچ کے مزید دو ارکان جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کو ناقابل سماعت قرار دیا تھا، یکم مارچ کو جب پنجاب اور خیبر پختونخواء میں انتخابات کے حوالے سے فیصلہ آیا تو نورکنی بینچ پانچ ججوں پر مشتمل رہ گیا تھا اور ان پانچ میں سے بھی دو مزید ججوں نے اپنے اختلافی نوٹس میں الیکشن کے انعقاد کے خلاف فیصلہ دیا۔
یوں نو رکنی بینچ میں سے دو ججوں کی علیحدگی کے بعد سات ججوں میں سے چار نے الیکشن کے انعقاد کے خلاف فیصلہ سنایا جبکہ چیف جسٹس سمیت تین ججوں نے الیکشن کے حق میں فیصلہ دیا، تیکنیکی اعتبار سے سپریم کورٹ آف پاکستان نے اکثریتی ججوں کے فیصلے کے ساتھ پنجاب اور خیبر پختونخواء میں الیکشن کے انعقاد کو مسترد کر دیا تھا مگر چیف جسٹس سمیت تین ججوں پر مشتمل ہم خیال بینچ کا شاید اصرار ہے کہ سپریم کورٹ ون مین پاور شو ہے اور ججوں کی اکثریت ساتھ نہ بھی ہو مگر فیصلہ چیف جسٹس کا چلے گا، کیا یہ ڈکٹیٹرشپ نہیں، کیا یہ انصاف ہے؟
عدالت میں جب کسی بھی کیس کی کاز لسٹ جاری ہوتی ہے تو پھر بینچ تبدیل نہیں ہو سکتا، جب سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخواء میں انتخابات کے حوالے سے نو رکنی لارجر بنچ بنایا تو اس وقت جو کاز لسٹ جاری ہوئی، وہی آخر تک برقرار رہی، دو ججوں نے بینچ چھوڑ دیا، چار ججوں نے الیکشن کے خلاف فیصلہ دیا اور تین ججوں نے الیکشن کے حق میں فیصلہ سنایا گویا چیف جسٹس غیرآئینی ایک ایسے فیصلے کو جو ان کا اپنا ذاتی ہے، اسے عدالت کا متفقہ اکثریتی فیصلہ قرار دے کر پاکستان کے عوام پر تھوپ رہے ہیں۔
اس غیرقانونی عمل سے انصاف کی دھجیاں اڑ گئی ہیں، اس غیرقانونی عمل کا ساتھ دینا تاریخ کی وہ غلط سمت ہے کہ جس پر آج بہت سے لوگ اس غلط فہمی کی بنیاد پر کھڑے ہیں کہ شاید حکومت الیکشن سے گریزاں ہے اور اس کے لئے یہ سب کھیل رچایا جا رہا ہے جبکہ حکومت کا مؤقف ہے کہ مقررہ وقت پر اور آئینی مدت کے خاتمے پر ملک بھر میں ایک ہی وقت انتخابات ہوں اور جس پارٹی کو اکثریت ملے، وہ حکومت بنالے، سپریم کورٹ کے اکثریتی ججوں کا فیصلہ یہی تھا کہ پنجاب اور خیبر پختونخواء میں انتخابات نہیں ہونے چاہئیں۔
پہلے جسٹس جمال خان مندو خیل اور جسٹس منصور علی شاہ نے بھی اپنے اختلافی نوٹس میں یہی بات لکھی اور آج جسٹس اطہر من اللہ نے بھی اپنے فیصلے میں کہہ دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت پنجاب اور خیبر پختونخواء میں انتخابات نہیں ہونے چاہئیں، ان ججوں کے فیصلوں کے بعد اب کوئی ابہام نہیں رہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان ہم خیال تین رکنی بینچ کے ساتھ نہیں کھڑی، اب یہ ہمارا فیصلہ ہونا چاہئیے کہ ہم انصاف اور عدلیہ کے ساتھ ہیں یا تین ججوں کے ساتھ جن کا ہر فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں ہوتا ہے۔
جہاں تک پنجاب اور خیبر پختونخواء کی اسمبلیوں کی تحلیل کا معاملہ ہے تو یہ بھی عدالت کا نہ صرف ایک متنازع فیصلہ ہے بلکہ یہ عدلیہ کے ماضی کے فیصلوں کے بھی بالکل برعکس ہے، سپریم کورٹ 1989ء میں اور 1993ء میں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے وزرائے اعلیٰ کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے کر اسمبلیاں بحال کر چکی ہے، اسمبلیوں کی تحلیل وزیراعلیٰ کا اختیار ہوتا ہے جبکہ پنجاب کا وزیراعلیٰ پرویز الٰہی علی الاعلان اسمبلیوں کی تحلیل سے قبل اور بعد میں بھی اس فیصلے سے اختلاف کرتا رہا۔
مگر انصاف کا پلڑا پی ٹی آئی کے حق میں جھکا رہا اور یوں اس متنازع فیصلے سے ملک میں دو مرحلوں میں انتخابات کی راہ ہموار ہوئی اور پاکستان، پنجاب اور دیگر صوبوں میں تقسیم ہوگیا۔ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے حوالے سے اب تک 84 کیسز سنے ہیں جن میں سے 83 مقدمات کا فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں آیا اور صرف ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے حوالے سے ایک کیس کا فیصلہ پی ٹی آئی کے خلاف آیا، اگر انصاف کا یہی معیار رہا تو عوام کا عدالتوں پر سے اعتماد مکمل طور پر اٹھ جائے گا۔