Badshah Gar
بادشاہ گر
بلاول بھٹو نے کوئی حکومتی عہدہ نہیں لیا اور ملک کے صدر اور وزیراعظم کا اعلان کرکے واضح پیغام دیا کہ میں بادشاہ بھی ہوں اور بادشاہ گر بھی۔ بلاول بھٹو کے اعلان کے ساتھ ہی پی پی پی کی وفاقی کابینہ میں شامل ہونے کی مسلم لیگ ن کی تمام خبریں دم توڑگئیں، شہباز شریف کو اپنی ہی پارٹی کے افراد کی ذرائع کی خبروں کی ان الفاظ سے تردید کرنا پڑی کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے کسی وزارت کا کوئی مطالبہ کبھی نہیں کیا، یہ پاکستانی میڈیا کے ان افراد کے منہ پر بھی ایک طمانچہ تھا۔ جو صبح نون لیگی ذرائع سے پی پی پی کو وفاقی کابینہ میں شامل کراتے تھے اور شام میں بلاول بھٹو کے کسی بیان سے ان کی یہ عمارت روز ڈھ جاتی تھی۔
اس سارے پراسس میں بلاول بھٹو نے اپنی ہر بات کو منوایا، انہوں نے پہلے دن کہا تھا کہ ہم نون لیگ کو ووٹ دیں گے مگر وزارتیں نہیں لیں گے، نون لیگ نے پہلے اپنے ذرائع سے میڈیا کو خبریں دیں کہ ایسی صورت میں وہ حکومت نہیں لیں گے اور بعد میں رانا ثنااللہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بھی یہی کہا مگر نون لیگ نے حکومت لی اور بلاول بھٹو نے ووٹ دئیے تو اپنی شرائط کو منوایا۔
صدر مملکت، وزیراعظم، گورنر، اسپیکر یا سینیٹ چیئرمین آئینی عہدے ہوتے ہیں، اگر نون لیگ ان عہدوں کے لئے پاکستان پیپلزپارٹی کو سپورٹ نہ بھی کرتی تو پی پی پی ان عہدوں کے لئے ہمیشہ کی طرح اپنے امیدوار کھڑے کرتی تاہم بلاول بھٹو نے نون لیگ سے منوایا کہ ہم ووٹ دے رہے ہیں تو آئینی عہدے پی پی پی کو ملنے چاہئیں۔
یہاں حکومت سازی کے عمل میں جہاں بلاول بھٹو نے ہائی مورل گراؤنڈ پر جاکر اپنے وزیراعظم بننے کی پیش کش کو ٹھکرایا، وہیں میاں نواز شریف ایک بار پھر وزیراعظم نہ بن سکے اور بلاول بھٹو کا اپنی الیکشن کمپئن کے دوران کہ ہم نوازشریف کو چوتھی بار وزیراعظم بننے نہیں دیں گے کا عزم بھی عملی صورت میں نظر آیا۔
جب ایک تقسیم شدہ مینڈیٹ ملا تو عوام نے یہ بھی دیکھا کہ کس نے سیاسی بساط پر اپنے پتے بہترین طریقے سے کھیلے، کون کس کے پیچھے چلا اور کس نے جیتی ہوئی بازی ہاردی، بلاول بھٹو نے اپنے دروازے کھلے رکھے تھے کہ پی ٹی آئی ان سے ہاتھ ملا کر اپنی حکومت بنالے مگر عمران خان شاید اس بات سے خوف زدہ ہوگئے کہ اگر بلاول بھٹو کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تو وہ ان کے اسپیس کو کھا جائے گا، عمران خان اگر بڑی سوچ کا مظاہرہ کرکے اپنی پارٹی کی حکومت بنوا دیتے تو کم از کم بلاول بھٹو کے اعلان کے مطابق سیاسی قیدی تو رہا ہوتے مگر شاید خان صاحب کو ایسی صورت میں اپنے سے زیادہ بڑھتی ہوئی بلاول بھٹو کی مقبولیت کا خوف دامن گیر تھا۔
الیکشن 2024 میں بلاول بھٹو نے کمپئن سے حکومت سازی تک کے عمل میں اپنی بہترین قابلیت کا مظاہرہ کیا اور ثابت کیا کہ بزرگ سیاست دانوں سے بہتر کردار ملک کے نوجوان ادا کر سکتے ہیں، یہ نئی سوچ ہمارے اگلے دور کی ابتدا ہے اور اس نئی سوچ کو ہمیں کھلے دل سے خوش آمدید کہنا چاہئیے۔