Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Usman Ghazi
  4. Aaj Ka Nojawan

Aaj Ka Nojawan

آج کا نوجوان

لمز یونی ورسٹی میں طلباء کے وزیراعظم سے سوالات بلاشبہ کوئی گہرائی نہیں رکھتے تھے مگر ان سوالات میں مزاحمت کے عنصر کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں، یہاں سوالات کی علمی سطح سے زیادہ وہ جرات یا شعور معنی رکھتا ہے جس کا اظہار طلباء نے خوبی سے کیا، یہ اظہار اس امر کا بھی غماز ہے کہ نوجوان اشرافیہ یا مقتدرہ کو ناپسند کرتے ہیں۔

پاکستان کا آج کا نوجوان ملک کے روایتی مزاحمتی طبقے سے جڑا ہوا نہیں ہے، وہ مزاحمتی طبقہ جس نے 70، 80 اور 90 کی دہائی میں آئین و قانون اور انسانی حقوق کے لئے جدوجہد کی، آج کے نوجوان کا اس طبقے سے دور دور تک کا تعلق نہیں، آج کا نوجوان ماضی کے اس مزاحمتی طبقے کو شاید کسی حد تک اپنا ولن بھی سمجھتا ہے اور اس نوجوان کا خیال ہے کہ ملک میں اشرافیہ یا مقتدرہ نے ماضی کی مزاحمتوں کی قربانیوں کو استعمال کیا ہے تو کہیں نہ کہیں ماضی کا مزاحمتی طبقہ بھی اشرافیہ یا مقتدرہ کے موجودہ تسلط کا ذمہ دار ہے۔

آج کے نوجوان کی اس سوچ کو بدلنے کے لئے کام ہونا چاہئیے، انہیں آگاہ کرنا چاہئیے کہ 70، 80 اور 90 کی دہائیوں میں ترقی پسندوں نے جو قربانیاں دیں، وہ لاحاصل بھی نہیں تھیں، آج کے نوجوان کو اگر جرات اظہار کا حق ہے تو یہ ماضی کے ترقی پسندوں کی قربانیوں کی وجہ سے ہی ہے، یہاں المیہ یہ ہے کہ اگر آج کا نوجوان اس بات پر قائل بھی ہوجائے تو وہ اگلا سوال کرتا ہے کہ واٹ نیکسٹ؟ اور یہاں بدقسمتی سے ترقی پسندوں اور جمہوریت پسندوں کے پاس کوئی مضبوط بیانیہ نہیں ہے۔

آج کا نوجوان اسٹبلشمنٹ کے تسلط کے خلاف جدوجہد کرنا چاہتا ہے مگر اس حوالے سے اس کے پاس کوئی لائن آف ایکشن نہیں، آج کا نوجوان وہی ایڈونچرز کرنا چاہتا ہے جو 70، 80 اور 90 کی دہائیوں میں ترقی پسندوں نے کئے مگر ان کے سامنے وہ ماحول نہیں، آج کا نوجوان اسٹبلشمنٹ کے زیرسایہ کام کرنے والی سیاسی جماعتوں، ججوں اور بیورو کریٹس کے خلاف آواز بلند کرنا چاہتا ہے مگر اس کے پاس کوئی پلیٹ فارم نہیں، سیاسی شعور کے حامل اور سیاسی دھارے سے کٹے ہوئے آج کے نوجوان کو یہ سمجھانا اب مشکل ہوچکا ہے کہ وہ اپنی اس سوچ پر سمجھوتہ کرلے۔

گزشتہ نسل نے آج کے نوجوان کو کیا دیا ہے؟ ایک گھٹن زدہ ماحول جہاں وہ موسیقی پر رقص نہیں کرسکتے، اعلی تعلیم پر اچھا خاصا خرچ کرکے ان کی تعلیمی قابلیت کے مطابق تنخواہ والی نوکریوں کا تو کوئی تصور ہی نہیں ہے اور اکثریتی نوجوان آبادی والے ملک سے اگر کوئی بیرون ملک بھی جانا چاہے تو روپے کی گرتی قدر نے اس سلسلے کو مزید مہنگا کردیا ہے، آج کے نوجوان کو علم ہے کہ ان کے ووٹ دینے کا کوئی فائدہ نہیں کہ اسٹبلشمنٹ ہی سب کچھ ہے، آج کے نوجوان کو عدالتوں پر اعتماد نہیں کہ ججوں نے خود کو اور اپنے ادارے کو خود رسوا کردیا ہے۔

ہمارے پالیسی سازوں کو آج کے نوجوان کو سمجھنا ہوگا، اسے وزیراعظم کے یونی ورسٹی میں تاخیر سے آنے سے تکلیف ہوتی ہے، اسے برا لگتا ہے کہ اس کی مرضی کے خلاف اس کو کسی سانچے میں فٹ کیا جائے، آج کے نوجوان کو اپنے مستقبل کے لئے اچھی امید چاہئیے، اس کے خوابوں کی تعبیر چاہئیے، اسے اپنے ووٹ کا درست استعمال چاہئیے، وہ اچھی نوکری چاہتا ہے، درست معیشت چاہتا ہے کہ مستحکم روپے سے اس کا اور اس کے خاندان کا فائدہ ہو، یہ 70، 80 اور 90 کی دہائی والا نوجوان نہیں ہے جو مہدی حسن اور لتا منگیشکر کو سنے، یہ بالکل الگ نسل ہے، یہ ریپ سنتا ہے، یہ نیٹ فلکس دیکھتا ہے، آج کے نوجوان کی ترجیحات، پسند اور ناپسند ماضی کے سماجوں سے ذرا سی بھی مطابقت نہیں رکھتیں۔

ہمیں آج کے نوجوان پر بھروسہ کرنا ہوگا، ان کو سیاسی نابلد ہونے کے طعنے دینے کے بجائے ان کو سمجھنا ہوگا، ان کی مزاحمت کا جو بھی طریقہ کار ہے، اسے ماننا ہوگا اور اس کا موازنہ ماضی کی مزاحمتوں سے کرنا بند کرنا ہوگا، اگر ہم آج کے نوجوان کی عزت نہیں کریں گے تو یہ بھی ہماری عزتوں کی دھجیاں اڑادیں گے، یہ نئے لوگ ماضی کے لوگوں سے زیادہ پرعزم اور جوش سے بھرے ہوئے ہیں، ان کے پاس ٹیکنالوجی ہے، جلد یا بدیر ہمیں ان کے پیچھے ہی چلنا ہوگا۔

Check Also

Baat Kahan Se Kahan Pohanch Gayi, Toba

By Farnood Alam