Maktoob
مکتوب
عربی زبان میں ایک لفظ رائج ہے جسے "مکتوب" کہتے ہیں، دیگر معنوں کے علاوہ مکتوب کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ ہر چیز لکھی ہوئی اور وقت متعین میں طے شدہ امر ہے۔ نہ وقت سے پہلے نہ وقت کے بعد۔ ضروری نہیں کہ جو شخص اپنے لیے کوشش کرے اس کا پھل بھی اسے ہی ملے، جس طرح درخت اپنا پھل خود نہیں کھاتا اسی طرح ہوسکتا ہے کہ کسی کی کوشش کا صلہ اسے کسی دوسری صورت میں کسی دوسرے وقت میں لوٹایا جائے یا پھر اس کی اگلی نسلوں میں اس کوشش کے باعث اس کے لیے آسانی مقدر ہو۔
ہمارے ذمے فقط یہ ہے کہ ہمیں جو صلاحیت اور قابلیت مل چکی ہے، اس کے مطابق امید کا دامن تھام کر اپنے حصے کا کام پوری ایمانداری اور دیانتداری سے کرتے رہنا ہے۔
ہزاروں برس قبل موسیٰؑ نے دعا کی تھی "رب اشرح لي صدري" کہ اے میرے پروردگار اگر مجھے لوگوں سے مکالمہ کرنے کا کام سونپا ہے تو پھر اسی کام کے لیے میری قابلیت میں اضافہ فرما اور مجھے شرح صدر عطا فرما۔
کیا آپ کو پتا ہے کہ موسیٰؑ کی یہ طلب جو فرش سے عرش کے نام لکھی گئی تھی وہ زمین پر کب واپس لوٹی؟
اس دعا کے بعد کتنے ہی برس بیت گئے تو زمان و مکاں پر کن فیکون کی ضرب پہلے سے مکتوب ساعت میں پڑی اور موسیٰؑ کی پکار کا جواب رب نے ہزاروں سال بعد دیا، دینے والا تو وہی تھا، مگر مانگنے اور لینے والے بدل چکے تھے عطائے رب کریم ان الفاظ میں ہوئی "ألم نشرح لك صدرك" اے محمد ﷺ ہم نے آپ کے سینہ کو نور الٰہی سے منور کرتے ہوئے، جس منصب پر فائز کیا ہے اس کے لیے وہ سب کچھ پہلے سے عطا کردیا ہے جسے موسیٰؑ نے اپنے لیے مانگا تھا۔
اشرح لي صدري کے سفر سے لے کر نشرح لك صدرك کی منزل تک سخت آزمائشوں سے بھرا طویل سلسلہ اور حکمتوں سے مزین خوبصورت فلسفہ پوشیدہ ہے۔
دوستو! وہ پیغمبر جن کے ذمے پوری نسل آدم کی ہدایت تھی وہ اس راز کو جان گئے تھے کہ ہر رسول کا منصب طویل سلسلے کی ایک کڑی تھی اور کڑی کبھی بھی بذات خود کسی چیز کی تکمیل نہیں ہوتی مگر وہ کسی تسلسل کو برقرار رکھنے میں کردار ادا کرتی ہے۔ وہ جان گئے تھے کہ آج ان کو جو میسر نہیں ہے، اس کی تمنا اور کوشش ہی اگلی نسلوں کے لیے میسر آسانی کا باعث ہوگی۔
آج ہمارے پاس اس کڑی کا کردار بننے کا وقت اور موقع ہے جسے تکمیل اور کاملیت کی بجائے ایسے سلسلے کا مسافر بننا ہے۔ جو ٹوٹی ہوئی کڑیوں کو جوڑے اور ادھورے سلسلوں کو بحال کرے۔ ہم اپنے لیے جو مانگیں اور جس کی سعی کریں اسے اپنے تک محدود کرنے کی کوشش نہ کریں، اپنی کوشش کا صلہ نہ ملنے کی صورت دل برداشتہ نہ ہوں، امید روشن چراغ کی مانند ہے اس کی لو پر مایوسی کے اندھیروں کو حاوی نہ ہونے دیں۔
آج ہمیں جو کچھ حاصل ہے اس کے لیے ہم سے پہلے والوں نے آرزو اور کوشش کی تھی مگر ان کی خواہش اور محنت کا پھل ہم کھا رہے ہیں۔
اگر کوئی اس خیال میں ہے کہ وہ اپنی محنت اور قابلیت کے بل بوتے پر رزق حاصل کرتا ہے تو پھر نئے پیدا ہونے والے بچے ایک سانس بھی نہ لے سکتے، انہیں رزق کسی قابلیت، صلاحیت یا ہنر کی بنیاد پر نہیں ملتا بلکہ وہ اسی "مکتوب" سے اپنا مقررہ حصہ حاصل کرتے ہیں۔