Pardes Ke Dukh
پردیس کے دُکھ
بعض اوقات انسان کا عمل اختیاری ہوتا ہے لیکن پھر اسی عمل کا نتیجہ انسانی بساط سے باہر ہوجاتا ہے۔ بہت کم لوگ اس نتیجہ کے منہ زور گھوڑے کو لگام دے پاتے ہیں۔ جو کامیاب ہو جائیں وہی خوش نصیب ٹھہرتے ہیں، ورنہ اکثریت کی قسمت میں عمل کا نتیجہ بھگتنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔
یہ عمل اپنوں کو چھوڑ کر دیارِ غیر میں بسنا ہے۔ ابتداء میں تو جزبے جوان ہوتے ہیں، دل میں اپنی غریبی ختم کرنے اور خاندان میں آگے نکلنے کا ولولہ موجزن ہوتا ہے اور ہوتا بھی ایسے ہی ہے۔ سمندر پار جانے والے کے اپنا گھر اور منزل دونوں آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں۔ پہلی مرتبہ واپسی پہ ایک عجیب سی فاتحانہ خوشی ہوتی ہے۔
جیسے ہی پتہ چلتا ہے کہ وہ آرہے ہیں، یار دوست، بھائی رینٹ کی گاڑی لے کر استقبال میں کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ استقبال یقینا کچھ پالینے کا مظہر ہوتا ہے۔ پھر جب وہ پہلی مرتبہ کی کمائی اپنے ماں، باپ، بہن بھائیوں، بیوی کے حوالے کرتا ہے تو عجیب سی سرشاری ہوتی ہے۔ کچھ دن یار دوستوں کے ساتھ کھانا پینا، ہنسی مزاق اور پھر واپسی۔
کچھ سال گزر جانے کے بعد جب بچے ہو جائیں اور انکی عمر 4 سے 5 سال ہو، تو پھر کڑا امتحان شروع ہوتا ہے۔ 2 سال مسلسل محنت مشقت کے بعد صرف 2 ماہ کی رخصت مل پاتی ہے۔ وہ دو ماہ کب گزر جاتے ہیں کچھ پتہ نہیں چلتا۔
زندگی کی اس منزل پہ شکستہ گھر کی جگہ نئے گھر بن چکے ہوتے ہیں، گھروں میں پنکھوں کے ساتھ ائر کنڈیشنر لگ چکے ہوتے ہیں، بچے سکول جانا شروع ہو چکے ہوتے ہیں اور گھر والے بھیجے گئے پیسوں سے فیضیاب ہو رہے ہوتے ہیں، اگر اس سب میں کوئی پس رہا ہوتا ہے تو وہ کہ جس کا پردیس میں بسنا ضرورت سے ذیادہ مجبوری بن چکا ہوتا ہے۔
یہ سارا منظر یوں میرے دماغ میں چل رہا ہے کہ کچھ دن قبل ہمارے کزن پاکستان آئے، طوفانی دورے کئے۔ گاؤں، دوست، رشتے دار، نیند، آرام، محفل آرائی کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن جیسے ہی دو ماہ مکمل ہوئے اور پردیس کا بلاوا آیا تو پھر جانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ دل کہہ رہا تھا کہ نہ جاؤ، لیکن دماغ کے ہاتھوں مجبور۔
شاید یہ کہانی سب کی ہو، لیکن میرے دماغ میں وہ منظر اٹک کے رہ گیا، جب سب ان کو وداع کرنے کھڑے تھے، باپ، ماں، چچا، محلے کے دیگر لوگ۔ سب مل چکے، بوجھل چہروں کے ساتھ۔ لیکن منظر بوجھل مزید تب ہوا جب بیٹے سے ملنے کا وقت آیا۔ وہ نہ جانے کب سے رو رہا تھا، جب وہ اپنے بیٹے کو چُپ کروانے کی کوشش کرتا، اس کے بوسے لیتا، بیٹا مزید رو دیتا۔ اس منظر نے اس کی آنکھیں بھی نم کیں اور جتنے وہاں کھڑے تھے وہ روئے نہیں تو مضطرب ضرور ہوئے۔
خدا جانے، جانے والے نے کیا کیا وعدے کر کے وداع کیا ہوگا، نہ جانے بیٹا کب چپ ہوا ہوگا۔ پردیس سدھارنے کے بعد سب اپنے معمول پہ آگئے۔ میں نہیں جانتا کہ بیٹا کن احساسات کو لے کر بڑا ہوگا، اور باپ کیسے پردیس کاٹے گا۔
کچھ پردیسی ایسے بھی ہیں جو آنا چاہتے ہیں لیکن عالمی حالات کچھ ایسے ہو چکے کہ ان کا واپس آنا مشکل ہو گیا ہے۔ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے آنا بھی چاہتے ہیں لیکن نہیں آپارہے۔ دیارِ غیر میں رہنے والوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ انسان کتنا بے بس ہوتا ہے۔ پردیس کے حالات ناساز، بیوی بچے ناراض، بہن بھائی پریشان، وہ سوچتے تو ہوگے کہ مولاؑ "کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں"۔
شاید یہ کہانی ہر پردیسی کی ہے، ہر پردیسی کے دل سے اُٹھتی ہوئی ٹیسیں شاید صرف وہی محسوس کر سکتا ہے۔ اللہ کریم ہر مضطرب پہ اپنا کرم فرمائیں اور ایسے اسباب مہیا فرمائیں کہ جہاں وچھوڑے کا درد نہ ہو۔
اللہ کریم آپ سب کو آسانیاں عطاء فرمائیں اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطاء فرمائیں۔