Ham Yousuf e Zaman Thay Abhi Kal Ki Baat Hai
ہم یوسفِ زماں تھے ابھی کل کی بات ہے
آپ کے خیال میں زندگی کسے کہتے ہیں؟ کیا زندگی صرف سانسوں کے چلنے کا نام ہے یا کہ ایک کیفیت ہے۔ آپ ایک لمحے کے لئے جہاں بیٹھے ہیں اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں، آپ کو جاندار، بے جان اشیاء کی بہتات ملے گی۔ مزے کی بات یہ کہ جنہیں ہم بے جان سمجھ رہے ہیں ان میں بھی جان ہے یا یوں کہہ لیں کہ ان میں بھی زندگی کی رمق ہے۔
نباتات کی اکثریت کی ابتداء بیج ہوتا ہے۔ بیج دو طرح کے ہوتے ہیں پہلے صحتمند بیج جن میں زندگی کی رمق، اُمنگ انگڑائی لینے کی منتظر ہوتی ہے، دوسرے وہ بیج جو اصل میں تو پہلے بیجوں کے جیسے ہی ہوتے ہیں مگر ان میں روحِ حیات کی رعنائی نہیں ہوتی۔ اب اگر ایک کسان ان دونوں قِسموں کے بیجوں کو یکساں ماحول فراہم کرے، یعنی اچھی زمین، کھاد، ہوا اور بروقت پانی، دونوں بیجوں کا نتیجہ یکسر مختلف ہوگا۔
پہلی قسم کا بیج جب بویا گیا، ہمہ قسم ماحول فراہم ہوا، روحِ حیات نے انگڑائی لی اور ایک ننھی کونپل زمین کا سینہ چیر کے زندگی کی علامت کے طور پہ نمودار ہوگئی، جبکہ دوسری طرف کچھ بھی نہیں۔
یہی ننھی سی کونپل جو نازک اتنی کہ ہلکا سا لمس بھی نہ سہہ سکے اور مضبوط اتنی کہ منوں مٹی تلے سے سر نکال کر باہر نکل آئے۔ یہی ننھی کونپل بڑھتے بڑھتے ایک تن آور درخت بن جاتی ہے، جہاں اس جیسی سینکڑوں کونپلیں موجود ہوتی ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پہلی کونپل ہو یا آخری ہمیشگی کسی کو نہیں۔
جہاں ایک کونپل اس دنیا میں اپنے وجود کا اظہار کرتے ہوئے کِھلتی ہے اور اپنے پتوں کو بازؤں کی مثل آسمان کی جانب پھیلا کر اپنے ہونے کا اعلان کرتی ہے لمحہ بہ لمحہ اپنی اگلی منزل کی جانب رواں دواں ہوتی ہے۔
یہ روحِ حیات ہی کی شادابیاں ہیں کہ وہ کونپل اب ایک پھول بن چکی ہے۔ پھول کی صورت روحِ حیات اپنا فیض بہ صورتِ خوشبو بانٹتی ہے۔ یہی پھول اتنا حسین ہوتا ہے کہ دنیا اسے رُک رُک کے دیکھتی ہے۔ یہی پھول جب اپنی منزل کی جانب مزید بڑھتا ہے کہ پھل کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ یہ پھل روحِ حیات کا ماحصل ہوتا ہے۔
اس سفر کا ایک کربناک پہلو بھی ہے۔ وہ درخت جو سینکڑوں پتوں کا حامل ہوتا ہے جب خزاں آتی ہے تو درخت کی جانب سے روحِ حیات کی رسد مفقود ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ پتہ اس آس پہ اپنے درخت سے پیوستہ رہتا ہے ابھی اختتام نہیں ہوا۔ وہ پتہ جس کا رنگ روحِ حیات کے سبب سبز رنگ کا ہوتا ہے، روحِ حیات کی رسد نہ ہونے کے سبب بدلنا شروع ہوجاتا ہے۔
پھر ایک وقت آتا ہے کہ پتے کا رنگ سبز سے پیلا ہوجاتا ہے۔ اس سب کے باوجود پتہ اپنے مرکز سے جڑا رہتا ہے، لیکن جب یہ رشتہ برائے نام رہ جاتا ہے، جب پتہ درخت پر بوجھ بن جاتا ہے تو ہلکی ہوا کا ایک جھونکا اس رشتے کو توڑ دیتا ہے۔
آپ تصور کیجئے کہ آپ وہی پتے ہیں، حالات کے تھپیڑوں اور اپنوں کی بے اعتنائی کے سبب، جو کسی بھی لمحے درخت سے جدا ہوا چاہتے ہیں۔ آپ روحِ حیات نہ سہی، پھر بھی بلندی پہ کھڑے زمانے کی بے اعتنائیاں ملاحظہ کر رہے ہیں۔ اب آپ کا ساتھ درخت سے چھوٹا، آپ آسمان سے زمین کی طرف رواں دواں ہیں، بلندی سے پستی کی جانب، آپ کی آنکھوں میں آغاز تا حال سب کچھ ایک لمحے میں گھوم جائے گا۔
جب آپ زمین کی آغوش میں لیٹ جائیں گے اور آپ کو سراہنے والا کوئی نہ ہوگا، آپ کو رُک رُک کے دیکھنے والا کوئی نہ ہوگا، پھر شاید آپ کہیں، بقول میر۔۔
کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آ گیا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھو کسو کا سر پر غرور تھا
اور بقول محسن نقوی۔۔
ہم یوسفِ زماں تھے ابھی کل کی بات ہے
تم ہم پہ مہربان تھے ابھی کل کی بات ہے
میرے نزدیک زندگی ایک کیفیت کا نام ہے کہ جو ہو تو زندگی ہے وگرنہ ہمارے ارد گرد کتنی ہی زندہ لاشیں سرگرداں ہیں، جن کے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر آپ زندہ ہیں تو اپنے زندہ ہونے کا ثبوت ضرور دیجئے اپنوں سے بھلائی کرکے، معاشرے کا بھلا کرکے، اپنا رب راضی کرکے۔۔
اللہ کریم آپ کو آسانیاں عطاء فرمائیں اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطاء فرمائیں۔