Siasi Qabail
سیاسی قبائل

گذشتہ رات ایک محفل میں بہت سی سیاسی جماعتوں سے وابستہ دوستوں میں کرنٹ افئیرز کے کئیں معاملات پر گفتگو ہوتی رہی۔ ہر دوست اپنی جماعت کے دفاع میں خوب دلائل دیتا رہا۔ میں زیادہ نہیں بولتا صرف سنتا ہوں۔ کیونکہ مجھے اندر سے بخوبی احساس ہوتا ہے کہ میرا کچھ کہنا نہ کہنا ایک برابر ہے۔ لوگ، دوست احباب سب اپنی لکیر کھینچ چکے ہیں اور اس لکیر سے ایک انچ بھی پیچھے کوئی نہیں ہٹے گا۔
پارٹی دائیں بازو کی ہو کہ بائیں کی، قیادت دبنگ ہو کہ موقع پرست، لیڈر وعدہ نبھانے والا ہے یا وعدہ فراموش، وہ عوامی طاقت پر کامل یقین رکھتا ہو یا چور دروازے کو بھی حلال سمجھتا ہو۔ اپنی بات پر قائم رہتا ہے یا حالات و ذاتی مفاد دیکھ کے رنگ بدل لیتا ہے۔ سیدھی بات کرتا ہے یا خود کو ہر بار درست ثابت کرنے کے لیے ہٹ دھرمی کی جلیبی بیچنے کی کوشش کرتا ہے۔ سچائی کچھ بھی ہو مگر چھاپ اکثر سچائی کو دبا لیتی ہے۔
مثلاً جماعتِ اسلامی لاکھ کہتی رہے کہ اس کے ارکان دیگر جماعتوں کی نسبت زیادہ منظم، ایمان دار، متقی و پرہیز گار ہیں اور اس جماعت میں حقیقی جمہوریت قائم ہے مگر جب جماعت کے سیاسی کردار کی بات ہوتی ہے تو عموماً یہ سننے کو ملتا ہے کہ ارے چھوڑیں! وہ تو ہر اہم موڑ پر اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم ثابت ہوئی ہے۔
جمعیت علما اسلام کے فضل الرحمٰن کے والدِ محترم مفتی محمود کی سیاست بے شک اصولی رہی ہوگی۔ خود فضل الرحمٰن نے بھی اپنی جوانی میں مارشل لا مخالف ایم آر ڈی جیسی جمہوریت پسند تحریکوں کا ساتھ دیا ہوگا۔ مگر آج مولانا کی تصویر یوں ہے کہ وہ عملی سیاست کے ماہر کھلاڑی ہیں۔ اعصابی تناؤ سے دور ہیں۔ اسی لیے بیک وقت پانچ گیندیں ہوا میں اچھال سکتے ہیں اور کبھی گرنے نہیں دیتے۔ لفافہ دیکھ کے خط کا مضمون بھانپ لیتے ہیں۔ کسی بھی فائدہ مند سودے بازی میں اپنے قریبی عزیز و اقارب و سگے بھائیوں کو بھی برابر کا حصہ دار بناتے ہیں۔ شکار اور شکاری کے ساتھ بیک وقت دوڑنے کی صلاحیت سے مالامال ہیں اور بوقت ضرورت وضع داری و سہولت برقرار رکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے بھی کام آ جاتے ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی جب تک نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) تھی تب تک بائیں بازو کی ایک سرکردہ قوم پرست جماعت کہلاتی تھی۔ مگر جدید اے این پی ایک ایسی خاندانی جاگیر ہے جو صرف قوم پرستی (پشتون شناخت) پر یقین رکھتی ہے۔ اس میں اگر کوئی نظریاتی مخلوق پائی جاتی ہے تو وہ اس کے پرانے سیاسی کارکن ہی ہیں۔ اگر پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ سے مخاصمت نہیں تو دشمنی بھی نہیں۔ خان عبدل ولی خان کی زندگی تک اس کی جڑیں خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے خاصے بڑے رقبے میں پھیلی ہوئی تھیں۔ اب اس کے زیادہ تر اثرات چارسدہ سے پشاور تک ہیں۔ گویا یہ اپنی ہی عظمتِ رفتہ کی نشانی ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف جب عوامی سطح پر متعارف کروائی گئی تو اسے عسکری اسٹیبلشمنٹ کی تازہ فخریہ پیش کش اور ملکی مسائل کے حل اور سیاسی گند کی صفائی کرنے والا الہ دین ٹائپ چراغ بتایا گیا۔ مگر پونے چار برس کے اقتدار میں ہی یہ فخریہ پیش کش ایسا کمبل بن گئی جس سے اسٹیبلشمنٹ جان چھڑانا چاہتی تھی لیکن کمبل جان نہیں چھوڑ رہا تھا۔ نو مئی کے بعد سے پی ٹی آئی کی کمبل کٹائی بھی لگاتار جاری ہے۔ الہ دین اندر ہے اور چراغ باہر اور وہ بھی بجھا بجھا سا اور چراغ کا جن جنرل فیض اگلوں کے قبضے میں۔ پہلے اس پر اسٹیبلشمنٹ نواز ہونے کی چھاپ تھی فی الحال اس پر اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کی چھاپ ہے۔ پاکستان میں وقت اور چھاپ بدلتے دیر کہاں لگتی ہے۔
جب پیپلز پارٹی وجود میں آئی تو وہ سرمایہ داری و جاگیر داری کے خلاف "اینٹی اسسٹیٹس کو" جماعت کا رنگ لیے ابھری۔ اسی سانچے میں پارٹی ورکرز کو بھی ڈھالا گیا۔ یہ جماعت پاکستان کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا تاثر برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ مگر مشرف کے این آر او کو قبول کرنے کے بعد ایک نئی چھاپ چپکنی شروع ہوگئی کہ وہ والی پیپلز پارٹی عوامی امنگوں کی ترجمان تھی۔ یہ والی پیپلز پارٹی نہ بائیں کی رہی نہ دائیں بازو کی بلکہ دھنئے کا شربت پی ہوئی ایک ہومیوپیتھک جماعت ہے۔ بینظیر کی شہادت کے بعد قیادت زرداری صاحب کی جھولی میں آن پڑی اس کے بعد سے اس کی قیادت ذاتی "سٹیٹس کو" کا تحفظ کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ علامتی طور پر ملک گیر مگر عملاً صوبائی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔
مسلم لیگ نواز آغاز سے ہی ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی ہے۔ اس کے اکثریتی شیئرز ایک ہی خاندان کے پاس ہیں۔ شروع میں اس پر ضیا کا سٹیکر لگا ہوا تھا اور جونیجو لیگ سے نکال کر اسے پیپلز پارٹی کو وٹہ مارنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ مگر تیسری بار اقتدار سے محرومی کے بعد اس کی قیادت نے کچھ عرصے کے لیے چی گویرا اور منڈیلا بننے کی کوشش کی۔ لیکن اب دوبارہ اس مصرعے کی قائل ہوگئی ہے کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے۔ سیاست میں گر رہنا ہے تو جئیے جرنیل کہنا ہے۔
پاکستان میں پچھلے چالیس برس میں کئی مد و جزر آئے مگر کوئی طوفان بھی نونی خاندان کا اندرونی اتحاد نہ توڑ سکا۔ پارٹی سٹرکچر بہت سادہ اور نظامِ شمسی کے اصول پر استوار ہے۔ ایک سورج اور اس کے گرد گھومتے گوجرانوالہ کے مریخ، سرگودھا کے عطارد، سیالکوٹ کے پلوٹو، گجرات کے نیپچون، فیصل آباد کے زحل اور لاہور کے زہرہ وغیر وغیرہ۔
بلوچستان میں جو سیاستدان اور جماعتیں آج بھی وفاق پرست ہیں۔ ان کا کردار سٹیپنی کا رہا ہے۔ جب اور جہاں جس گاڑی کے لیے ضرورت پڑی بارعائیت دستیاب ہو گئے۔ ایم کیو ایم کا بھی کچھ ایسا ہی احوال ہے۔
مندرجہ بالا تمام جماعتیں دراصل سیاسی قبائل ہیں۔ جب تک یہ قبائل خود کو حقیقی جمہوری تقاضوں کے مطابق ایک ایسی سیاسی جماعت کے جسم میں نہیں ڈھالتے جس میں نیا خون مسلسل بننا اور گردش میں رہنا چاہیے تب تک یہ طرح طرح کی مہلک بیماریوں کا شکار رہیں گے اور اسٹیبلشمنٹ ان کی اسی دلجمعی سے عیادت و علاج کرتی رہے گی۔