Monday, 30 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Marie Biscuit Aur Turkish Ice Cream

Marie Biscuit Aur Turkish Ice Cream

میری بسکٹ اور ترکش آئسکریم

دنیا میں کھانے والی دو اشیاء ایسی ہیں جن کی خصوصیت ہارڈ انصافی جیسی ہے۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔ پہلی آئیٹم میری بسکٹ ہے۔ میری (Marie biscuit) واحد بسکٹ ہے جو نہ چائے میں ٹوٹ کر گرتا ہے نہ چائے کو اپنے اندر جذب کرتا ہے۔ اس پر چائے کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ایسا کیمیائی ایجنٹ جو کسی بیرونی عوامل سے اثر پذیر نہیں ہوتا۔ میں نے غصہ کھا کر اس نام نہاد بسکٹ کو دو سے تین منٹ کے لئے چائے میں ڈبو کر دیکھا مگر جب نکالا تو اسے ویسا ہی خشک و سخت پایا گویا ابھی فیکٹری سے پیدا ہو کر ہی آیا ہو۔ پھر میں نے اس پر پانی کا سپرے کیا تو قطرے اس کی سطح مرتفع ہموار پر شبنم کی مانند ٹکے رہے اور پھر بہہ گئے۔ تنگ آ کر میں نے بیگم کو تھماتے ہوئے کہا کہ لو اس سے برتن مانجھ لیا کرو۔ اسٹیل وول لانا بند کر دو۔ اس سے بہتر واٹر پروف میٹریل شاید ہی کوئی ہو۔ میری بسکٹ کی تہہ لینٹر میں ڈالنی چاہیئے تا کہ چھت لیک نہ ہو پائے۔

دوسری آئیٹم ترکش آئس کریم ہے۔ یہ عام آئسکریم نہیں ہوتی۔ جب پہلی بار میں نے استنبول میں کھانا چاہی تو مجھ پر منکشف ہوا کہ اس کو تھوڑا نرم کرکے کھانا بہتر رہے گا۔ یہ آئیٹم cheese سے بنتی ہے اور وہ بھی ایسی چیز سے جو گچک کی مانند sticky یا لچک دار ہوتی ہے۔ اوپر سے اس کو اتنا ٹھنڈا کیا جاتا ہے کہ مجال ہے پگھل جائے اور پگھلے بھی کیسے؟ چیز کو پگھلتے پگھلتے بھی گھنٹہ تو چاہئیے۔

اگر آپ ترکش آئسکریم کھانا چاہیں تو بہترین طریقہ کھانے کا یہ ہے کہ اسے لے کر پندرہ منٹ دھوپ میں رکھ دیں تاکہ کچھ نرم پڑ جائے۔ بے فکر رہیں یہ ہرگز نہیں پگھلتی۔ بس اس کی ٹھار کچھ نرم پڑ جاتی ہے تو کھانے کے قابل ہو جاتی ہے۔ آپ اس کی کون کو بیشک سارا دن ساتھ لیے پھرتے رہیں اگر پگھل گئی تو ذمہ دار میں ہوں گا۔ مجھے اس کی کوالٹی پر اس قدر یقین ہے کہ اس کے اپنی جگہ مضبوطی سے جمے رہنے کی گارنٹی دے سکتا ہوں۔ بلکہ اگر آپ کا سفری بیگ خدانخواستہ کسی سبب سے پھٹ گیا ہے تو ترکش آئسکریم لگا کر آپ وقتی طور پر اسے جوڑ سکتے ہیں۔

استقلال سٹریٹ پر چلتے میں نے ترکش آئسکریم لی۔ منہ میں ڈالی تو اس نے ٹوٹنے سے انکار کر دیا اور پیزے پر لگی چیز کی مانند اس کے ریشے کون سے الگ نہ ہوئے۔ میں نے ہاتھ میں پکڑی کون کو اپنے چہرے سے بہت دور کر دیا کہ کسی طرح تو ریشے ٹوٹیں۔ اتنا دور کہ موبائل سے سیلفی لیتے بھی اس سے قبل اتنا بازو نہ پھیلایا تھا۔ آخر چیز کے ریشے ٹوٹ ہی گئے۔ اس کے بعد مجھے سمجھ آ گئی کہ یہ ربڑ کی بنی آئسکریم میرے بس سے باہر ہے۔ وہاں ایک پاکستانی فیملی اپنے نونہال کے ساتھ گھوم رہی تھی۔ میں ان کے پاس گیا اور بچے کو پیار سے سہلایا، کیچو میچو کیا اور چلتے ہوئے آئسکریم کون اسے دینا چاہی۔ بچے کے والد نے اول تو انکار کیا مگر میرے پرزور اصرار پر چپ رہا۔ آئسکریم سے جان چھڑوا کر میں تیزی سے نکل لیا۔

گلاٹا ٹاور کی جانب سے واپس استقلال سٹریٹ پر آدھ گھنٹے بعد آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ فیملی ایک بنچ پر سر جوڑے پریشان بیٹھی ہے اور ان کا کاکا آئسکریم سے کھیلتے ہوئے اپنے کپڑے بھر چکا ہے مگر آئسکریم اب بھی جوں کی توں کون پر ٹکی ہوئی ہے۔ اس سے قبل کہ وہ فیملی مجھے پہچان کر پکڑ لیتی میں یوٹرن لے گیا۔

Check Also

Wafaqi Aeeni Adalat Zaroorat Ya Siyasi Chaal?

By Muhammad Riaz