سعدیہ نذیر
سعدیہ نذیر سے دوستی 2010 میں ہوئی تھی جب ہمارے علاقے میں خوفناک سیلاب آیا۔
ایک سیلف میڈ لڑکی جس نے پہلے پاکستان/اسلام آباد میں محنت سے ٹیکس چارٹرڈ اکاونٹس کی ٹاپ فرم میں اپنا نام کمایا اور اب وہ دوبئی میں ایک بہت بڑی عالمی چارٹرڈ فرم میں اعلی عہدے پر فائز ہے۔
وہ کچھ عرصہ ہوا دوبئی شفٹ ہوئی ہے۔
وہ میرے جنگ کے کالم پڑھتی تھی۔ (کہنے لگی کامریڈ آج بھی تمہارے کالمز پڑھتی ہوں)۔
خیر 2010 میں اس نے اپنے اسٹاف کے زریعے مجھے پیسے بھجوائے کہ وہ ان مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنا چاہتی ہے جو اجڑ گئے تھے۔ وہ ایک انسان دوست روح ہے جس نے اپنی تنخواہ سے ہمیشہ چپکے سے مظلوموں کی بڑی مدد کی ہے۔
خیر اس سیلاب والے کالم پر کچھ اور دوستوں نے بھی پیسے بھجوائے۔ میں اور میری بیوی نے اپنی ایک ایک ماہ کی تنخواہ نکالی اور ان بے چارے لوگوں میں بانٹی جو سب کچھ چھوڑ کر ہمارے گائوں کے قریب دریا کے کنارے اپنی بربادی کو بے بس آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ ہماری بستی کے لوگ ان اجڑے لوگوں کو اپنے گائوں لائے۔ گائوں سکول میں رکھا گیا۔ کئی روز تک کھانے پینے کا بندوبست کیا گیا۔ ان میں نقدی بانٹی گئی تاکہ اپنے گھروں کو واپس جا کر خود کو دوبارہ زندگی کی طرف لائیں۔ ایک بوڑھی خاتون کو تین ہزار روپے نقدی دی گئی اور ساتھ میں معذرت کی کہ اس وقت اتنی ہی ایک ایک بندے کی مدد ہوسکتی ہے۔ اس خاتون کے الفاظ چودہ برس بعد بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں کہ اس وقت ہمارے لیے ایک روپیہ ایک ایک لاکھ کے برابر ہے یہ تو تین ہزار ہے۔ اس سے بڑی قناعت پرستی کیا ہوسکتی تھی۔
یوں سعدیہ سے ایک طویل تعلق بنا۔ پتہ چلا وہ بھی کتابوں کی رسیا ہے۔ اس نے ہی مجھے The Forty Rules Of Love پڑھنے کے لیے دیا تھا۔ میں نے اسے ایک روایتی کہانی سمجھ کر ایک طرف رکھ دیا تھا۔
سعدیہ نے دو تین دفعہ مجھ سے پوچھا رئوف ناول پڑھا؟ میں ٹال گیا اور پھر 2015 میں ایک دن کراچی ائرپورٹ سے اسلام آباد کی فلائٹ لے رہا تھا تو وہاں بک شاپ پر وہی ناول نظر آیا۔ مجھے پتہ نہیں کیا سوجھی کہ میں نے خرید لیا حالانکہ گھر پر سعدیہ کی دی ہوئی کاپی رکھی تھی۔ میں نے سوچا چلیں جہاز میں پڑھتے ہیں تاکہ سعدیہ کو کچھ تو بتا سکوں اور جب تین چار دن بعد وہ ناول ختم کیا تو مجھ پر ایک جہاں بیت گیا۔ میری سوچ اس ناول کو پڑھ کر ایسی بدلی کہ لگا میرے اندر ایک نئے انسان نے جنم لیا تھا۔ جن چند ناولز نے میری سوچ پر اثر ڈالا تھا ان میں یہ ناول بھی تھا۔ اس ناول کا اثر میں دس سال بعد بھی محسوس کرتا ہوں۔ پھر جرمن ناول The Reader نے مجھے بدل کر رکھ دیا تھا۔ سعدیہ جب اسلام آباد میں تھی تو اسلام آباد میں کبھی کبھار کتابوں کی شاپنگ کرتے تھے۔ زندگی میں جن تین لوگوں سے لٹریچر تاریخ فلاسفی پر گفتگو کرتے مزہ آتا تھا اور زندگی خوبصورت لگتی ان میں نعیم بھائی، ڈاکٹر ظفر الطاف کے بعد سعدیہ ہے۔ ان تینوں میں ایک ہی بات مشترک تھی کہ وہ بہت کتابیں پڑھتے تھے اور گفتگو میں ملکہ حاصل تھا۔ وہ گفتگو کرتے رہیں اور مجال ہے آپ بور ہوں۔
نعیم بھائی اور ڈاکٹر ظفر الطاف کے بعد جو خلا پیدا ہوا تھا وہ سعدیہ نے پر کیا تھا اور پھر ایک دن وہ بھی اپنی فیملی کے ساتھ دوبئی شفٹ ہوگئی۔ یوں اسلام آباد میں کوئی ادب یا کتاب شناس نہ رہا جس سے زندگی کے ان ہنگاموں سے دور کسی روشن دوپہر کافی یا لنچ پر گفتگو کی جاسکتی۔ سعدیہ جیسی سمجھدار اور پڑھی لکھی مخلوق میں نے زندگی کم دیکھی ہوگی۔ ایک میچور اور سمجھدار انسان۔
بڑے دنوں بعد اب سعدیہ پاکستان آئی ہے۔ وہ جب بھی آتی ہے میرے لیے برج خلیفہ میں کتابوں کی سب سے بڑی دکان سے درجن بھر کتابیں لاتی ہے اور مجھے اسے کبھی بتانے کی ضرورت پیش نہ آئی کہ میرے لیے کون سی بکس لانی ہیں۔ اسے پتہ ہے اس نے کیا شاپنگ کرنی ہے۔ (آپ زرا بکس کے نام دیکھ لیں اندازہ ہو جائے گا وہ کتنی میچور ریڈر ہے)۔
اسلام آباد کلب میں پولو گراونڈ میں چار سو سردیوں کی پھیلی دھوپ میں لنچ پر جب سعدیہ نے مجھے کتابوں کا بنڈل تھمایا اور میں نے سب کچھ بھول کر بکس دیکھنا شروع کیں تو مجھے کھانا بھول گیا۔ میری حالت دیکھ کر سعدیہ ہنس کر کہنے لگی کتابوں کے درمیان تم بالکل ایک چھوٹے سے بچے لگتے ہو جسے اس کا پسندیدہ کھلونا مل گیا ہو۔
سعدیہ کھانا کھاتی رہی اور میں کھانا کچھ بھول کر کتابوں کے ٹائٹلز ہاتھوں میں لے کر پڑھتا رہا۔ سعدیہ کو علم ہے مجھے کھجور بہت پسند ہیں لہذا وہ دوبئی سے شاندار کجھوروں کا ایک ڈبہ الگ سے لائی۔
شاید مارک ٹوئن نے نعیم بھائی، ڈاکٹر ظفر الطاف اور سعدیہ جیسے میرے دوستوں بارے کہا تھا دوست ہوں، کتابیں ہوں لیکن انسان کا ضمیر مردہ ہوتو زندگی بہت خوبصورت ہے۔