Roshan Khayal Danishwar Aur Israel Ki Roshan Khayali
روشن خیال دانش ور اور اسرائیل کی روشن خیالی
ہمارے محترم صحافی آج کل اسرائیل کی سیر و سیاحت سے محظوظ ہو رہے ہیں اور اپنی تحریروں سے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ جیسے اسرائیل سے زیادہ مہذب ترقی یافتہ، روشن خیال اور اعلی ظرف ملک تاریخ کے نقشے پہ نہ تو ابھرا اور نہ ابھرے گا۔ یہ اعلیٰ ظرفی اچھی چیز ہے مگر جس کے موصوف ترانے گارہے ہیں۔ اس کی جدید ٹیکنالوجی نے فلسطینیوں کے گھروں، ہسپتالوں، سکولوں، کیمپوں، خیموں اور خوراک کے گوداموں کو کھنڈر میں بدل دیا۔
یہ کیسی رواداری ہے جس کے محترم گن گا رہے ہیں کہ فلسطین کے آبائی مکینوں تک کو برداشت نہیں کیا جا رہا اور وعدہ خلافی کرنا تو پھر کوئی اسرائیل سے سیکھے۔ سب سے پہلے تو آپ وہ معاہدے دیکھ لیں جو یہودیوں نے مدینہ میں آپ ﷺ کے ساتھ کیے تھے۔ کتنی ان وعدوں کی پاسداری کی گئی۔ اسلامی عہد زریں میں یہودیوں کو تحفظ مسلمانوں نے فراہم کیا۔ تاریخ میں سب سے زیادہ قتل یہودیوں کا عیسائیوں نے کیا تب یہودی بھاگ بھاگ کر اسلامی ملکوں میں پناہ لیتے تھے۔ اسلامی ممالک ان کی محفوظ پناہ گاہ تھے اور یہ اس احسان کا بدلہ چکا رہے ہیں۔
موصوف فرما رہے تھے کہ اسرائیل کے اندر لاکھوں فلسطینی کام کرتے تھے۔ جتنے بھی فلسطینی اسرائیل میں کام کرتے تھے اور جو مسلمان آج بھی وہاں پہ کام کر رہے ہیں ان میں سے کوئی بھی کسی بڑے انتظامی عہدے پر نہیں ہے اور اگر کوئی ہے تو اس کے اندر جذبہء حب الوطنی نہیں ہے۔ وہ بظاہر فلسطینی ہے مگر قول و فعل میں اسرائیلی ہے۔ وہ اسرائیل کے لیے لڑتا ہے اور ان کے حقوق کا دفاع کرتا ہے۔ پارلیمنٹ میں جو 10 مسلمان ارکان ہیں ان میں مسلمانی کہاں ہے؟ کیا انہوں نے کبھی اسمبلی میں اسرائیلی پالیسیوں پہ تنقید کی یا ان کی پالیسیوں پر رتی بھر بھی اثر انداز ہوئے۔ نہیں نا۔ وہ ہو بھی نہیں سکتے کیونکہ یہ مقام پانے کے لیے سب سے پہلے تو انہوں نے اپنے ایمان کو حلال کیا تھا۔
ہم سے اچھا تو رونالڈو ہے جس نے اسرائیل کے مظالم کی وجہ سے، ہر لحاظ سے اسرائیل کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ وہ اسرائیلیوں سے ہاتھ تک نہیں ملا تا۔ اسے جہاں موقع ملتا ہے وہ فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کرتا ہے۔ ایک دفعہ آسٹریلیا کا اسلحے سے بھرا ہوا ایک بحری جہاز جب اسرائیل جانے لگا تو عوام نے احتجاج کیا۔ چھوٹی چھوٹی کشتیں لے کر اس بحری بیڑے کو گھیرے میں لے لیا۔ اس طرح آسٹریلیا کو مجبوراََ سلحے کی امداد روکنی پڑی۔ اینلے شیلس جو امریکہ میں انسانی حقوق ڈ یسک کی انچارج تھی انہوں نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔
جب ان سے ایک صحافی نے پوچھا کہ آپ نے کیا سوچ کر استعفی دیا تو وہ کہتی ہیں کہ میری ایک معصوم سی بیٹی ہے۔ جب وہ بڑی ہو کر ظلم کی یہ داستان پڑھے گی تو وہ مجھ سے پوچھے گی موم آپ نے کیا کیا۔ تو میں اسے فخریہ کہہ سکوں گی کہ میری گڑیا میرے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے میں کچھ نہیں کر سکتی تھی مگر میں نے احتجاجاََ استعفیٰ دیا تھا اور ہم استعفی یا انکار کرنے کی بجائے ان ممالک کی سیاحت اور میزبانی کے مزے لے رہے ہیں اور دنیا کو بتا رہے ہیں کہ یہ بہت پرامن اور رواداری والے لوگ ہیں۔
امریکہ کی 45 ریاستوں میں ڈیڑھ سو سے زائد کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ نے احتجاج کیا۔ امریکی پالیسیوں پر تنقید کی۔ سیز فائر اور اسلحہ سپلائی کی بندش کا مطالبہ کیا۔ یہ احتجاج ہارورڈ، برکلے اور پرنسٹن جیسی یونیورسٹیوں میں بھی کیا گیا۔ برطانیہ، فرانس، نیدرلینڈ، فن لینڈ، ڈنمارک، آسٹریا، اٹلی، جرمنی، سپین، لبنانی اور بنگلہ دیشی طلبہ نے بھی اس احتجاج میں حصہ لیا۔ جس میں انہوں نے اسرائیل کے مظالم اور فلسطینی نسل کشی کے خلاف احتجاج کو روکنےکا مطالبہ کیا۔ سان فرانسسکو میں بھی بحری جہاز کی سیڑھیوں کے ساتھ چند لوگوں نے اپنے آپ کو باندھ لیا جن میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل تھی۔ وہ جہاز اسلحے سے بھرا ہوا تھا اور اسرائیل جانے کی تیاری کر رہا تھا۔
غیر مسلم ممالک ایک طر ف یہ تو غیر مسلم لوگوں کی انفرادی مثالیں ہیں۔ دوسری طرف ہماری اجتماعی اور انفرادی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔ ساؤتھ افریقہ سب سے بازی لے گیا جس نے نیلسن منڈیلا کی روایات کو پھر سے تازہ کر دیا۔ صدر راما فوسا نے فلسطینیوں کی نسل کشی کو افریقہ میں کی گئی نسل کشی کے مماثل قرار دیا اور 23 دسمبر 2023 کو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں اسرائیل کے فلسطینی نسل کشی جرائم کے خلاف کیس دائر کر دیا۔ یہ سب اظہارِ یکجہتی غیر مسلم ممالک اور غیر مسلم لوگ کر رہے تھے۔ برازیل، وینز ویلا، چلی، بولیویا، جنوبی کوریا وغیرہ نے اپنے اپنے سفیر اسرائیل سے واپس بلا لیے تھے۔ یہاں سوال یہ کہ ہم نے کیا کیا؟
وہ اسرائیلی جو غزہ کی مسجدوں پر بمباری کرکے نمازیوں کو شہید کرتے ہیں، جو خوراک کے مراکز تباہ کرتے ہیں جو شیرخوار بچوں کو دودھ کی سپلائی روک دیتے ہیں جو ہسپتالوں کو کھنڈر وں میں بدل دیتے ہیں جو خدمت خلق کرنے والے یو این او کے 200 سے زائد اراکین کو اپنی گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں جو خیموں اور کیمپوں پر جہازوں سے بمباری کرتے ہیں جو اسلحہ اور ٹینکوں سمیت ہسپتالوں میں گھس جاتے ہیں اور ہسپتالوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیتے ہیں۔ جو بھی ان کی تعریف کرے گا۔ ان کے اوصاف گنوائے گا۔ ان کو دنیا کی مہذب ترین قوم ثابت کرنے کی کوشش کرے گا۔ ان کے دین، مذہب اور ایمان کی بات تو چھوڑیے۔ ان کے انسان ہونے کی کیا دلیل ہے؟ کیا وہ بھی ظلم کے برابر کے حصے دار نہ ہوئے۔ اگر ظلم کو روک نہیں سکتے تو چپ رہ کر ظلم سے اپنی نفرت کا اظہار تو کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اتنے ہی بزدل ہیں کہ کچھ کر نہیں سکتے تو چپ رہنا ظالم کے اوصاف گنوانے سے ہزار گنا بہتر ہے۔
ظالم، غریب کے ہاتھ پاؤں توڑ کر پھر اس کی دوائیوں کے اخراجات اٹھاتا ہے۔ پھر وہ میڈیا کو جمع کرکے مظلوم کے ساتھ اپنی ہمدردی اور رحم دلی کے قصے سناتا ہے پھر چند دن پڑتے ہیں۔ وہ کسی کی زمین پر قبضہ کر لیتا ہے۔ مزاحمت کرنے والوں کو قتل کر دیتا ہے۔ جب وہ سب بے گھر ہو جا تے ہیں۔ جب ان میں لڑنے بھڑنے کی سکت نہیں رہتی۔ بھوک، غربت، وقت کی ستم ظریفی، جب انہیں پاگل کرنے والی ہوتی ہے تب یہی لوٹنے والے، قتل کرنے والے پھر سے میڈیا کو جمع کرتے ہیں اور ان بے گھروں سے چند گھر بانٹ دیتے ہیں اور پھر میڈیا کے سامنے دو چار آنسو بھی بہا دیتے ہیں۔ اس کے بعد میڈیا انھیں وقت کا حاتم طائی ثابت کرنے لگ جاتا ہے۔
عبدالستار ایدھی سے زیادہ انسانیت کا ہمدرد خواہ ثابت کرتا ہے۔ یہی سب کچھ آج اسرائیل کر رہا ہے۔ ایک طرف اس کے مظالم کے طویل، تلخ ترین تاریخ ہے تو دوسری طرف وہ دنیا کی نظریں ہٹانے کے لیے نامور ادیبوں، دانشوروں کو دعوت نامے بھیج رہا ہے۔ اسرائیل انھیں تاریخ کا، روایات کا صرف وہ حصہ دکھاتا ہے جو زیادہ روشن اور دلکش ہے اور وہ روشن دماغ ان کے قصائد پڑنے لگ جاتے ہیں۔ اسرائیل کو دنیا کی عظیم ترین قوم بنانے پہ تل جاتے ہیں پھر یہ روشن خیال طبقہ ان کے بارے ایسے بات کرتا ہے کہ جیسے صرف وہی دنیا کی امن پسند اور انسانیت دوست قوم ہے۔
انسانی خدمت کا جذبہ ان کے رگ و پے میں ہے اور وہ بڑی ہی بردبار اور روادار قوم ہے۔ یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ جو روشن ہے، چمکدار ہے لیکن جب تک تصویر کے دوسرے رخ کا درشن نہیں کریں گے حقیقت عیاں نہیں ہوتی اگر دلِ داغدار میں سچائی پانے کی ذرا سی بھی تمنا ہے تو پھر کیوں ناں تصویر کے دوسرے رخ کے بھی درشن کریں اور پھر فیصلہ کریں کہ کون کتنا مہذب، روادار اور احسان فراموش ہے۔