Friday, 03 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Ali Ahmar
  4. Bint e Dhair

Bint e Dhair

بنت داہر

زمانہ جاہلیت کی بات ہے جب میں محمود غزنوی، محمد بن قاسم، حیدر علی، یوسف بن تاشفین جیسے اسلامی ہیروز کے ناول پڑھ کر سر دھنا کرتا تھا۔ ہر ناول پڑھتے وقت میں خود کو اسلام کا ادنیٰ سپاہی سمجھا کرتا تھا جو انتہائی شریف النفس، نماز روزہ کا پابند، مفلوک الحال، بہادری میں یکتا، خوبصورتی میں تاک، گردش ایام کا مارا ہوا ہوتا تھا جس کو چلتے چلتے ایک ایسی لڑکی مل جاتی تھی جو اعلیٰ ظرفی میں بے مثال، خاندانی وجاہت کی میراث سنبھالے ہوئے، پوری دنیا کا زر و ثروت سمیٹے ہوئے (پنچ وقتہ نمازی تو اولین شرائط میں سے تھی نہ)، خوبصورتی میں سورج کو آنکھیں دکھائے مگر مجبور، بےبس اور لاچار۔ ایسے میں ہر دو کا محبت کے پاک بندھن میں بندھ جانا لازم ہو جاتا اور ناول کے آخر میں وصال پر بات ختم ہوتی۔

اس کے بعد مسلم افواج کے ساتھ مل کر گھوڑے دوڑانا، علاقہ پر علاقہ فتح کرنا، دریاؤں میں گھوڑے اتار دینا اور فتح کے بعد تمام فوج کا سجدہ شکر بجا لانا، ہر کسی کے مال و عزت کی حفاظت کرنا اور سب کو اپنے عمل سے گرویدہ کرکے مسلمان بنا لینا، واللہ، زندگی کتنی خوبصورت تھی۔

ایسے میں ہماری رواں زندگی میں کنکر گرنا شروع ہو گئے اور لہروں کے تلاطم نے سب کچھ درہم برہم کرکے رکھ دیا۔ جوں جوں ہم تاریخ پڑھتے گئے معاملات اس کے برعکس پاتے گئے۔ ایک ایک کرکے ہماری سوچوں، ہماری عقیدت کے مینار منہدم ہوتے گئے اور تلخ حقیقتیں جبڑا کھولے ہمارے سامنے آن کھڑی ہوئی۔

ان تمام ہستیوں میں سے جن کے ہم شیدائی رہے تھے ایک موصوف "ابن قاسم" بھی تھے جنہوں نے سترہ برس کی عمر میں راجہ داہر کی فوج سے ٹکر لی اور دیبل کی بندرگاہ فتح کرکے برصغیر میں اسلام کی راہ ہموار کی (یہ بات یہاں دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ ابن قاسم سات سمندر پار سے ایک بے یار و مددگار لڑکی کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے آئے تھے)۔ اب محمد بن قاسم کس لیے اور کس کی ایما پر برصغیر پہ حملہ آور ہوئے تھے یہ میں تاریخ کے طالب علموں پر چھوڑتا ہوں کہ وہُ کھوج لگائیں، اب آتے ہیں اس کتاب پر۔

مجھے جب اس کتاب کے بابت علم ہوا تو مجھے بہت خوشی ہوئی کہ اس میں مروجہ واقعات سے انحراف کیا گیا تھا اور کسی حد تک سچ بیان کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ میں خوشی خوشی یہ کتاب پڑھنے لگ گیا کہ بہت عرصہ بعد کچھ ہٹ کر پڑھنے کو ملا ہے۔ مگر کتاب پڑھنے کے بعد سخت مایوسی ہوئی مجھے۔

بنت داہر کا کردار (جو کہ راجہ داہر کی بیٹی تھی اور ہندوستان کی دوسری رانیوں کی طرح سیاست، معاشرت اور معاشیات سے پوری طرح آگاہ تھی) اتنا مضبوط تھا کہ وہ ہندوستان کی تاریخ کا دھارا موڑ سکتی تھی۔ مگر مصنف نے اسے صرف "کوک شاستر" کا استاد بناُ کر رکھ دیا جو ابن قاسم کو یوگا کے تمام آسن سکھاتی رہی، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

محمد بن قاسم کو نا انصاف، ظالم، لٹیرا سب کچھ بنا کر پیش کیا جا سکتا تھا مگر مصنف نے اسے صرف بنت داہر کی "راکھیل" بنا کر رکھ چھوڑا اور حکومت ابن قاسم کے دو جرنیلوں کے ہاتھ تھما دی جو بن قاسم کے شوق ہو کوا دیتے رہتے اور حکومت کے تمام امور خود انجام دیتے۔

اور اس ناول کا خاتمہ بھی مصنف نے عجیب نہج پر کیا ہے جو سمجھ سے باہر ہے۔ لگتا ایسے ہے کہ ناول کو بیچ میں چھوڑ دیا گیا ہے اور اس کا دوسرا حصہ بھی آئے گا۔ واللہ عالم۔۔

خیر یہ موضوع اور کہانی کے اعتبار سے ایک بہت عمدہ تاریخی ناول بن سکتا تھا مگر افسوس مصنف سے کہانی سمیٹی نہ گئی۔

Check Also

Pachtawe Ki Taqat

By Asif Masood