District Press Khanewal Ke Yaadgar Tareekhi Intekhabat
ڈسٹرکٹ پریس خانیوال کے یادگار تاریخی انتخابات
آج میرے آبائی شہر خانیوال میں پریس کلب کے انتخابات تھے۔ کئی سال سے یہاں انتخابات کی جگہ "سلیکشن" ہو رہی تھی۔ اس صورت حال پر اس پریس کلب سے وابستہ فعال صحافی فکر مند تھے اگر وہ بھی کسی نہ کسی مصلحت یا مجبوری کے گزشتہ کئی سالوں سے چلنے والی "سلیکشن پریکٹس" کا حصہ بنے ہوئے تھے۔
اس پریس کلب میں ہمارا گروپ "سینئر ورکنگ جرنلسٹس گروپ " سے کام کرتا رہا۔ اگرچہ میں اس میں "سینئر" کے سابقے کو خوامخواہ اور زبردستی کا اضافہ خیال کرتا تھا۔ یہ گروپ ایسے صحافیوں پر مشتمل تھا جن میں کچھ تو وہ تھے جو کبھی اس پریس کلب کا حصہ تھے لیکن پھر انھیں اس کلب کی رکنیت سے محروم کردیا گیا تھا جن میں اے پی پی، پی ٹی وی، ڈیلی دا نیشن لاہور، ڈیلی ڈان لاہور، ڈیلی فرنٹیئر پوسٹ پشاور /لاہور، ڈیلی ڈیلی ٹائمز لاہور، روزنامہ سنگ میل جیسے پرانے اور کچھ نئے انگریزی و اردو اخبارات کے نمائندے تھے اور کچھ نئے صحافی جو معروف قومی، علاقائی اور مقامی روزناموں سے وابستہ تھے۔
یہ کل ملا کر 14 صحافی تھے جنھیں صحافت کے میدان میں قدم رکھے کم سے کم دس سال اور زیادہ سے زیادہ 20 سال کا عرصہ ہوچکا تھا۔ ان صحافیوں کو پریس کلب کی انتظامیہ رکنیت دینے سے انکاری تھی۔ یہاں تک کہ جب کم و بیش دس سال بعد نئی رکنیت سازی کا عمل شروع ہوا اور ان چودہ صحافیوں نے رکنیت کے لیے درخواست دی تو تب بھی ان میں سے صرف دو اراکین کو رکنیت دی گئی باقی کے بارہ افراد کو رکنیت کی شرائط پر پورا اترنے کے باوجود رکنیت سے محروم رکھا گیا۔
ان 12 صحافیوں نے سول کورٹ سے رجوع کیا تو وہاں فاضل جج اپروچ ہوگئے اور ان کی رٹ مسترد کردی گئی تو ان بارہ صحافیوں نے لاہور ہائیکورٹ ملتان بنچ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کی اور دو سال کے عرصے میں اس کیس کا فیصلہ ان 12 صحافیوں کے حق میں ہوا۔ یوں 14 صحافیوں پر مشتمل "سینئر ورکنگ جرنلسٹس گروپ" ڈسڑکٹ پریس کلب خانیوال میں پہنچا اور پہلی بار پریس کلب میں 64 کے قریب ووٹرز لسٹ پر شفاف جمہوری انتخابات ممکن ہوئے۔
اس موقعہ پر سینئر ورکنگ جرنلسٹس گروپ کو پریس کلب میں موجود دو اور گروپوں کے ساتھ مل کر ایک گرینڈ الائنس بناکر انتخابات لڑنے کا موقعہ میسر آ رہا تھا تب کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ سے ایک دن پہلے رات کو سینئر ورکنگ جرنلسٹس گروپ کے صدر اور ان کے تین دیگر ساتھیوں نے بنا مشاورت کے پہلے سے الائنس میں موجود دو گروپوں سے اپنا اتحاد ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور جو گروپ بطور انتظامیہ ان چودہ اراکین سمیت فعال صحافیوں کو رکنیت دینے کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرتا آیا تھا اس سے اتحاد بناکر انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔
ہمارے لیے اس وقت اس فیصلے کے خلاف جانے کا وقت نہیں تھا اور بادل نخواستہ ہم نے اس نئے اتحاد کے پینل سے حصہ لیا۔ لیکن چونکہ یہ ایک موقعہ پرستانہ اتحاد تھا جس کے خلاف اس گروپ میں بغاوت ہوئی جس سے یہ اتحاد بنایا گیا تھا اور اس گروپ میں سے 13 اراکین نے خفیہ فاروڑ بلاک بنایا اور نتیجہ سامنے آگیا کہ ہمارے الائنس کے صدر اور جنرل سیکرٹری کے امیدوار محض ایک ووٹ سے وہ الیکشن ہار گئے۔ جبکہ ہمارے پینل سے محمد اشرف گادھی اور میں کامیاب ہوئے اور ہم دونوں کومنتخب صدر اور جنرل سیکرٹری سے بھی زیادہ ووٹ ملے۔ جبکہ ہمارے پینل کے سینئر نائب صدر کے امیدوار کو مخالف پینل کے مدمقابل امیدوار کے برابر ووٹ پڑے اور فیصلہ یہ ہوا کہ وہ مقررہ مدت کے نصف نصف میں اس عہدے پر براجمان ہوں گے۔
یہ اچھا موقعہ تھا کہ ہم منتخب باڈی میں رہ کر اپوزیشن کرتے اور جمہوری عمل کو جاری رکھتے لیکن ہمارے ہارنے والے صدر نے پریس کلب سے باہر بیٹھ کر اپوزیشن کا فیصلہ کیا جو مجھ سمیت ہمارے گروپ کی اکثریت کو نامنظور تھا۔ ہم نے اپنے گروپ کی قیادت تبدیل کرنے کے لیے ایک اجلاس بلایا جس میں گنتی میں 14 ممبران میں سے 10 اور نان ممبرز میں سے 4 ممبران نے قیادت کی تبدیلی کے حق میں فیصلہ دیا جسے پرانی قیادت نے نامنظور کردیا اور گروپ کی تقسیم کی راہ ہموار کی۔ ہم دس ممبران پریس کلب اور چار نان ممبرز پر مشتمل ساتھیوں نے اپنا الگ گروپ " ورکنگ جرنلسٹس گروپ " نام سے تشکیل دیا اور اس گروپ کے صدر محمد اشرف گادھی اور جنرل سیکرٹری راقم کو بنایا گیا۔
اگلے سات سالوں میں ہمارا گروپ پریس کلب میں پریس کلب کی رکنیت نہ رکھنے والے فعال ممبران کی رکنیت کے لیے لڑائی لڑتا رہا اور اس کوشش میں ہمیں صرف یہ کامیابی ملی کہ قریب قریب مزید 14 فعال صحافی اس کلب کی رکنیت حاصل کر پائے جبکہ 22 ممبران ایسے لوگ بنے جن کے پاس پریس کارڈ تو تھے لیکن ہم انھیں فعال صحافی نہیں کہہ سکتے تھے جبکہ پریس کلب کی ووٹر لسٹ اب 96 ممبران تک جاپہنچی تھی جس میں مشکل سے 64 ممبران فعال صحافی کہے جاسکتے تھے۔ اس دوران ہمارے گروپ کی عددی طاقت 18 کے قریب ہوگئی تھی اور اس میں مزید اضافے کی گنجائش اس لیے نہیں تھی کہ ہم اپنے گروپ میں "غیر فعال افراد" کو شامل کرنے کے حق میں نہ تھے۔
اگلے سات سال پریس کلب کی انتخابی تاریخ میں مشکوک انتخابات اور سلیکشن کے سال تھے۔ ہمارا گروپ اس دوران پاور پالیٹکس سے زیادہ اصلاحات کی طرف مائل رہا اور ہم دوسرے گروپوں کے فعال اور رہنماء صحافیوں کو قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ مشکوک انتخابات اور سلیکشن کی بجائے حقیقی جمہوری انتخاب کی طرف آئیں۔ میں اس دوران عملی طور پر اس غیر جمہوری پریکٹس سے الگ رہا اور پھر میں ملتان ایک اردو روزنامے اور ایک انگریزی خبر رساں ایجنسی سے منسلک ہوگیا اور ملتان پریس کلب کا ممبر بھی بن گیا۔ ہمارے گروپ کو خانیوال میں اشرف گادھی لیڈ کرتے رہے۔
اس سال نومبر میں گادھی صاحب نے مجھ سے رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ پریس کلب میں تین گروپوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ان کی قیادت بھی چاہتی ہے کہ پریس کلب میں سلیکشن کا عمل ختم ہو اور حقیقی انتخابات ہوں۔ میں نے انھیں گو اے ہیڈ دیا اور کوشش کی کہ حقیقی انتخابات کی بنیاد پڑے۔
ہمارا مقابلہ اسٹیٹس کو برقرار رکھنے اور سلیکشن کو جاری رکھنے کے حامی گروپوں سے تھا۔ ان کی کوشش یہ تھی کہ اس بار بھی سلیکشن ہو۔ اس کے لیے انھوں نے مقامی طاقتور سیاست دانوں، ڈسٹرکٹ بار اور ایک طاقتور تاجر گروپ کی مدد بھی لی اور ہماری راہ میں کافی رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی۔ عدالت سے اسٹے لینے کی بھی کوشش کی لیکن ہمارے چار گروپس کے اتحاد کے رہنماؤں کی مستقل مزاجی اور استقامت نے اس عمل کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ ہمارے چار گروپوں کی ابتداء میں عدی طاقت 39 تھی ہماری کوششوں سے ہمیں پریس کلب کے مزید 10 سے 11 ممبران کی حمایت بھی میسر آگئی۔
95 کی لسٹ پر اگر انتخابات ہوتے تو ہمیں یقین تھا کہ ہم 50 یا 51 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہتے اور اس 95 کی لسٹ میں 9 ممبران فوت ہو چکے تھے تو اس عمل میں 86 ممبران نے ووٹ کاسٹ کرنا تھا اور مقابلہ 50 یا 51 اور 35 /36 سے ہونا تھا اور ہمارے چار رکنی الائنس کی جیت یقینی تھی۔ اس موقعہ پر مدمقابل الائنس نے تین دن پہلے مزید 20 افراد کو لسٹ میں شامل کرنے کی شرط پر الیکشن میں حصہ لینے کی حامی بھری جس میں دس ہماری طرف سے اور دس ان کی طرف سے ممبران شامل کیے گئے۔
یہ شرط اس خیال سے رکھی گئی تھی کہ ایک تو دس اراکین کے ناموں پر ہمارے چار گروپوں میں اختلاف ہوگا اور کوئی گروپ اس اتحاد سے الگ ہوجائے گا۔ لیکن اس موقعہ پر ہمارے الائنس نے تدبر اور حکمت سے کام لیتے ہوئے یہ کوشش بھی ناکام بنادی اور جن 10 اراکین کو ہم نے لسٹ میں شامل کیا ان میں سے ایک کو بھی وہ توڑنے میں ناکام رہے اور یوں الیکشن کا انعقاد ہوا۔ انتخابی کمپئن کے دوران ہمارے تمام ممبران نے پورے پینل کے لیے ووٹ مانگا اور ہم نے اس موقعہ پر کسی بھی ایسے ووٹر کو مسترد کیا جو پورے پینل کو ووٹ دینے سے انکاری تھا۔
اگرچہ ہم ایسا کرتے تو کم از کم ہمارے دو مرکزی امیدواروں کے ووٹ 65 سے 70 ہوجانے تھے۔ جبکہ دوسری طرف کمپئن کے آخری چند دنوں میں ہمارے مدمقابل صدر اور جنرل سیکرٹری کے امیدوار تنہا اپنے اپنے لیے ووٹ مانگتے نظر آئے اور ایک موقعہ پر تو ایسا لگا کہ جیسے مدمقابل الائنس صرف اور صرف ہر قیمت پر ہمارے پینل کے صدر کو ہرانے میں دلچسپی رکھتا ہے جو دس بار پریس کلب کا صدر رہ چکا تھا۔ جبکہ ہمارے صدر اور جنرل سیکرٹری کے امیدوار پہلی بار ان عہدوں کے لیے انتخابات لڑ رہے تھے۔
ہمارے صدر کے امیدوار کے خلاف بدقسمتی سے فرقہ وارانہ مہم بھی چلائی گئی اور ان کی مذھبی فرقہ وارانہ شناخت کو لیکر کافی پروپیگنڈا کیا گیا۔ ہمارے لیے یہ انتخابات اس لحاظ سے بھی چیلنج بن گئے تھے کہ ہمارے صدارتی امیدوار کا تعلق ایک اقلیتی مذھبی فرقے سے تھا۔ ان کے خلاف "کفر" کے فتوے بھی ہمارے لیے سخت چیلنج تھے اور ہمیں اس چیلنج کا سامنا صرف مدمقابل اتحاد سے ہی نہیں تھا بلکہ ہمیں اندر سے بھی اس چیلنج کا مقابلہ کرنا تھا اور ہمارے اتحاد کے چاروں گروپوں میں موجود ترقی پسند ساتھیوں اور اعتدال پسند مذھبی ساتھیوں کے لیے یہ اس چیلنج سے کہیں بڑا چیلنج تھا جب مجھ سمیت چند ساتھیوں کے الیکشن میں حصہ لیتے وقت ہمارے "کمیونسٹ " ہونے کا پروپیگنڈا کیا گیا تھا اور ہم اس چیلنج سے آسانی سے نبرد آزما ہوگئے تھے۔
ڈسٹرکٹ پریس کلب خانیوال کی انتخابی تاریخ میں ایک تو یہ پہلا موقعہ تھا کہ ایک الائنس کا صدارتی امیدوار پہلی بار ایک مذھبی اقلیتی فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔
ہم سب ساتھیوں کے لیے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہوتا کہ ہمارا صدارتی امیدوار اس زہریلے فرقہ وارانہ پروپیگنڈے کے سبب یا تو ایک دو ووٹوں کے مارجن سے فتحیاب ہوتا یا شکست سے دوچار ہوجاتا۔ ہم پریس کلب کی تاریخ میں جمہوری عمل کی بحالی کے دوران اس داغ ندامت کو اپنے اتحاد کے ماتھے پر سجانے کو ہرگز تیار نہ تھے۔ ہم نے پوری کمپئن اپنے سارے پینل کی فتح پر مرکوز کی اور یہ کوشش کی کہ پینل کو پڑنے والے ووٹوں میں ایک یا دو ووٹوں سے زیادہ فرق نہ ہو۔
ہمارے لیے انتخابات کے موجودہ نتائج اس لیے بھی بہت امید افزا ہیں کہ ہمارے صدارتی امیدوار کو 61 ووٹ ملے اور جنرل سیکرٹری کو 59 ووٹ ملے جبکہ مدمقابل صدارتی امیدوار کو 45 ووٹ اور جنرل سیکرٹری کے رنر آپ امیدوار کو بھی 45 ووٹ ملے۔ جبکہ ہمارے مجلس عاملہ کے امیدواروں کی اکثریت کو بھی 59 ووٹ ملے جبکہ ایک نوجوان امیدوار مجلس عاملہ وقار حسین پراچہ 62 ووٹ لیکر کامیاب ہوا۔ ہمارا پورا پینل کامیاب ہوا اور ہمارے چار گروپوں کے ممبران کا ایک ووٹ بھی مخالف پینل میں کسی کو نہیں ملا۔
ڈسٹرکٹ پریس کلب خانیوال کی تاریخ میں پہلی بار منتخب صدر اور جنرل سیکرٹری ماسٹرز ڈگری ہولڈر ہیں اور دیگر عہدے داران اور مجلس عاملہ کے منتخب ممبران کی اکثریت بھی ماسٹرز اور گریجویشن ہے۔ یوں پہلی بار ڈسٹرکٹ پریس کلب خانیوال کی باڈی کی اکثریت اعلی تعلیم یافتہ اور فعال صحافیوں پر مشتمل ہے۔
مجھے پوری امید ہے کہ ڈسٹرکٹ پریس کلب خانیوال کی منتخب باڈی پریس کلب کی رکنیت سازی کا احیا کرے گی اور وہ تمام فعال پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ صحافیوں کو پریس کلب کی رکنیت ترجیحی بنیادوں پر دے گی اور سب سے بڑھ کر پریس کلب میں جینڈر بیلنس کو بھی متعارف کرائے گی اور خواتین فعال صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کو پریس کلب کا رکن بنائے گی اور ذاتی پسند ناپسند کا معیار ختم کرے گی۔
امید کرتا ہوں کہ ڈسٹرکٹ پریس کلب خانیوال میں اب کبھی مشکوک انتخابات اور سلیکشن کی غیر جمہوری روایت پلٹ کر نہیں آئے گی اور یوں یہ ادارہ ہمسایہ اضلاع کے پریس کلبوں کے لیے جمہوری انتخابی عمل کو جاری و ساری رکھنے کے لیے ایک مثالی صحافتی ادارہ بنکر ابھرے گا۔ خانیوال کی صحافتی برادری کو پریس کلب میں جمہوریت کا احیا مبارک ہو۔