Saturday, 21 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Manzar Nama

Manzar Nama

منظرنامہ

جسٹس طارق جہانگیری کی ڈگری تا چیف جسٹس کی توسیع اور آئی ایم ایف پیکج سے لے کر ریکوڈک شئیرز سعودیہ کو بیچنے تک کی سموک سکرینز کے پس پردہ کچھ ایسا بھی چل رہا ہے جو زیادہ تشویشناک ہے۔ کچھ خدشات ہیں اور انہی خدشات کے پیش نظر عمران خان صاحب نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے آج رجوع کر لیا ہے۔ ان کو فوجی تحویل میں لیے جانے کا امکان ہے جس کی پیشگی منصوبہ بندی کرتے ہوئے خان صاحب ہائیکورٹ میں جا چکے ہیں۔

میں اس خیال کا ہوں کہ کسی سیاسی جماعت اور سیاسی لیڈر بالخصوص سابقہ وزرائے اعظم کو بے جا اور ریاستی دباؤ یا جعلی کیسز بنا کر پابند سلاسل نہیں کیا جانا چاہئیے۔ پاکستان کی بھٹو سے لے کر عمران خان تک لمبی ہسٹری ہے جس میں وزرائے اعظم جیلوں میں گئے ہیں۔ میں کسی سیاسی جماعت پر پابندی کے حق میں بھی نہیں۔ یہ حق صرف عوام کا ہے وہ جسے چاہے مسترد کرے۔ پابندیاں صرف مسلح گروہوں پر لگائی جائیں جو ریاستی آئین سے باغی ہو کر ہتھیار اٹھا لیتے ہیں یا مذہبی بنیاد پر فساد پھیلاتے ہیں۔

اصولاً، قانونً اور آئینی طور پر ریاست پاکستان کے محکمے پاک افواج کا سیاست میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہئیے اور ایسا کرکے محکمہ غیر آئینی کام کرتا ہے مگر یہاں جتنے اصول و قانون رائج ہیں وہ آپ سب جانتے ہیں۔ زمینی حقائق یہی ہیں کہ ایک محکمہ خود کو مقدس اور خود کو ریاست ڈکلئیر کر چکا ہے اور عوامی اختیارات صلب کر چکا ہے۔ یہ اس ملک کی بدقسمتی ہے اور یہی پتھریلی حقیقت ہے۔ اس حقیقت کو راتوں رات بدلنا ممکن ہی نہیں۔ اس کے واسطے لمبی تحریک اور لمبا عرصہ چاہئیے۔ حالات تب بدلتے ہیں جب ان کو بدلنے کی سعی کرنے والی لیڈرشپ موجود ہو۔ یہاں ایسی لیڈرشپ وجود نہیں رکھتی۔ جو سیاسی مال موجود ہے وہ اسی نظام کا حصہ بننے کو بیتاب رہتا ہے اور اسی نظام میں کرسی چاہتا ہے۔ تھوڑے بہت اخلاقی، مالی و سیاسی اختلافات کے ساتھ کم و بیش تمام سیاسی لیڈرشپ کا یہی المیہ ہے۔ وہ اسی میراتھن کے کھلاڑی ہیں جس کے آغاز والی ہوائی فائر کوئی اور کرتا ہے۔ اسی میوزیکل چئیر کے کھلاڑی ہیں جس کے آغاز کو بجنے والی سیٹی حوالدار بشیر کے ہاتھ ہوتی ہے۔

بہرحال، عمران خان جیسے بھی ہے، ہے۔ وہ اس ملک کے سیاسی نظام کی ایک بڑی حقیقت ہے۔ لوگ اسے چاہتے ہیں اور اسے ووٹ کرتے ہیں۔ میں ہمیشہ سے کہتا آ رہا ہوں کہ مسائل کا حل کسی ایک افلاطون کے پاس نہیں ہے۔ یہاں گریٹر ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ سٹیک ہولڈرز کو ایک میز پر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ ان سٹیک ہولڈرز میں بدقسمتی سے عسکری اسٹیبلشمنٹ نہ صرف شامل ہے بلکہ میجر سٹیک ہولڈر ہے۔ پاکستان لمیٹڈ کمپنی کے چھہتر برسوں کے سٹاکس کا جائزہ لیا جائے تو معلوم یہ ہوگا کہ انچاس فیصد شئیرز مقامی اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہیں۔ باقی اکیاون فیصد میں سے چالیس فیصد اینگلو سعودی امریکن کنسورشیم کی ملکیت ہیں اور گیارہ فیصد شیرز چین اور عالمی مالیاتی اداروں نے خرید رکھے ہیں۔ خان صاحب کا المیہ نہیں یہ پاکستانی عوام کا المیہ ہے اور ان کے چاہنے والوں کی بدقسمتی ہے کہ خان صاحب ڈائیلاگز کے لیے تیار نہیں۔ وہ صرف عسکری محکمے سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ خان صاحب کے ہاں یا تو تخت ہے یا تختہ۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔

موجودہ منظرنامے میں تشویشناک بات یہ سامنے آ رہی ہے کہ فیض حمید کے پاس سے کافی مواد مل چکا ہے جو عمران خان صاحب کی ذات اور ان کی جماعت کے سیاسی مستقبل واسطے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ میری ذاتی رائے میں عمران خان صاحب کو نو مئی پر غیر مشروط معذرت کر لینا چاہی۔ اس معاملے کو خوش اسلوبی سے ٹال دیں اور آگے چلیں۔ مخالفین بالکل سیاسی فوائد تلاش کریں گے اور عمران خان صاحب پر بہت بڑا سیاسی دباؤ بھی آئے گا۔ مگر دانش کا تقاضہ یہی ہوتا ہے کہ اپنے لیے راہ نکالی جائے اور ہر صورت بند گلی سے نکلا جائے۔ ان کی غیر مشروط معافی ان کے حق میں بہتر رہے گی۔ بصورتِ دیگر خطرات لاحق ہیں۔

نو مئی میں تحریک انصاف کے مشتعل کارکنان شامل تھے۔ یہ حقیقت ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ ان کو ٹریپ کیسے کیا گیا اور کس نے ان کو کھُلی راہ فراہم کی۔ نو مئی سے ہر صورت نکلنے کی ضرورت ہے۔ اگر فوجی تحویل میں لے لیا گیا تو ہائی ٹریزن کیس بنے گا۔

ملکی معیشت وینٹی لیٹر پر پڑی ہے۔ سارا نظام بند گلی کا راہی ہو چکا ہے۔ سیاسی استحکام ہی اس بند گلی سے نکلنے کی کُنجی ہے اور اس مقصد واسطے سب کو پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ یہ بات یاد رکھیں کہ ادارہ ان سب میں شامل نہیں۔ وہ پیچھے نہیں ہٹا کرتا۔ ان کی ٹریننگ میں صرف پیش قدمی شامل ہوتی ہے۔ طاقت کبھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا کرتی۔ اس کو ہلانے واسطے سخت مشقت کرنا ہوتی ہے۔ یہاں سب سے مراد اس ملک کی ساری سیاسی لیڈرشپ ہے۔ میرے لکھنے اور آپ کے متفق یا غیر متفق ہونے سے ٹکے کا فرق نہیں پڑتا۔ فرق جن کے سبب پڑنا ہے ان کے کانوں تک عوامی دباؤ کے راستے بات پہنچانے کی ضرورت ہے۔

خدا کسی ملک، خطے، قوم کو عزیز نہیں رکھتا۔ نقشے بنتے بھی ہیں، بگڑتے بھی ہیں۔ طاقتیں ٹوٹتی بھی ہیں۔ جغرافئیے بدلتے بھی ہیں اور پیچھے رہ جاتا ہے پچھتاوا جو تاریخ کا حصہ بنتا جاتا ہے۔

Check Also

Hum, Azadi Aur Quaid e Azam

By Hannan Sher