Tuesday, 22 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Doulat Ali

Doulat Ali

دولت علی

سنہ 2011 کا موسم گرما تھا۔ اگست کے آغاز کے دن تھے۔ میں فیملی کے ساتھ استور پہنچا۔ استور سے کرائے پر جیپ لی۔ جیپ کا ڈرائیور دولت علی تھا، پاکستان آرمی سے رئیٹائر تھا۔ اس دور میں مجھے معلوم نہیں تھا کہ منی مرگ جانے کے واسطے آرمی سے اجازت لینا ہوتی ہے۔ دولت علی جیپ میں چلم چوکی لے گیا۔ وہاں ایک چائے کی ڈھابے میں رات بسر کی۔ اگلی صبح دولت علی نے آرمی سے اجازت لی۔ اجازت ملنے کے بعد منی مرگ جانا ہوا۔ وہاں پہنچ کر میری بیٹی کو سردی لگ گئی۔ اس وقت میری بیٹی کی عمر چار سال تھی اور بیٹا ایک سال کا تھا۔ ساری رات وہ اُلٹیاں کرتی رہی اور دولت علی تسبیح پڑھ کر اور کچھ قرآنی آیات پڑھ کر بچی پر پھونکتا رہا۔ میری بیٹی نیم جاں حالت میں پڑی رہی۔

رات جیسے تیسے جاگتے اور دعائیں مانگتے کٹ گئی۔ بیگم پریشان ہو کر مجھے کہتی رہی کہ ابھی یہاں سے واپس چلیں اور پنجاب پہنچ کر ڈاکٹر کو چیک کروائیں۔ دولت علی بیگم کو سمجھاتا رہا کہ بیٹا اس وقت آپ لوگ منی مرگ سے نہیں نکل سکتے۔ راستہ تاریک ہے۔ خطرناک ہے اور فوج آدھی رات کو سفر کی اجازت نہیں دیتی۔ صبح ہوتے ہی دولت علی غائب ہوگیا اور کچھ دیر بعد آرمی میس سے ایک فوجی ڈاکٹر ساتھ لے آیا۔ ڈاکٹر نے بیٹی کو انجیکشن لگایا، سیرپ دئیے۔ ہم اس کے بعد اسی دن واپس پنجاب آ گئے اور پھر روزمرہ کی زندگی میں مصروف ہو گئے۔

تین سال بعد گرمیوں میں ایک بار پھر میرا استور جانا ہوا۔ راما میڈوز میں پی ٹی ڈی سی مینیجر سے دولت علی کا معلوم کیا۔ اس نے جواب دیا کہ دو دولت علی ہیں۔ دونوں ہی جیپ ڈائیور ہیں۔ ایک وہ جس کا بیٹا لولو سر میں شہید ہوگیا جو آرمی سے رئیٹائر ہے۔ دوسرا دولت علی کوئی اور تھا۔ میں نے دولت علی کے گھر کا پتہ لیا اور وہاں پہنچ گیا، دولت علی کسی کام سے باہر تھا گھر پر نہیں تھا۔

گھر پہنچ کر پتہ چلا کہ دولت علی کا جوان بیٹا جس کو وہ دن رات مزدوری کرکے CSS کی تیاری کروا رہا تھا اسلام آباد سے استور آتے ہوئے بابوسر کے قریب لو لو سر جھیل پر کوچ سے اُتار کر مار دیا گیا۔ ایک گولی اس کی گردن کی پشت پر ماری گئی اور خنجر اس کے پیٹ میں۔ مرنے والے کا قصور یہ تھا کہ وہ اس مسلک سے تعلق رکھتا تھا جو یا حسین کہتے ہیں اور مارنے والے اس مسلک کے تھے جو یا اللہ کہتے ہیں اور یا محمد، یا علی، یا حسین والوں کو واجب القتل سمجھتے ہیں۔ اس ماحول میں وہاں زیادہ دیر بیٹھنا ممکن نہیں تھا تو اُٹھ کر ہوٹل واپس آ گیا۔

اگلی صبح دولت علی مجھے تلاش کرتا پی ٹی ڈی سی راما آ گیا۔ اس نے بتایا کہ میں گھر آیا تو مجھے پتہ لگا کوئی صاحب مجھے ملنے آئے تھے میں گھر نہیں تھا تو سوچا کہ میں خود ہی تلاش کر لیتا ہوں۔ اپنے بیٹے کے بارے بتاتے ہوئے آبدیدہ ہوگیا۔ کافی دیر خاموشی رہی۔ جب رخصت ہونے لگا تو مجھے بولا "صاحب آپ نے بابو سر کے راستے نہیں جانا"۔ واپسی پر پنجاب پہنچنے تک اس نے چار پانچ بار کالز کرکے خیریت دریافت کی اور ہر بار یہی کہتا رہا کہ آپ نے بابو سر سے نہیں جانا، قراقرم ہائی وے سے جائیں۔

تین سال پہلے میں فیملی کے ہمراہ پھر استور میں پہنچا۔ دولت علی سے استور بازار میں ہی اتفاقی ملاقات ہوگئی۔ اس نے میرے بیٹے بیٹی کو دیکھا۔ دونوں نے اس سے سلام لی۔ پھر مجھے دیکھ کر کہنے لگا " کہاں سے آیا ہے؟ بابوسر سے یا قراقرم ہائی وے سے؟"۔ میں نے جواب دیا "بابوسر پاس کھُلا ہے۔ امن امان ہے۔ وہیں سے آیا ہوں"۔ اب کے اس نے یہ سن کر جواب دیا " صاحب، اپنے بچے کو ایک بار غور سے دیکھ لو کیسا پیارا بچہ ہے پھر تمہارا کبھی بابوسر سے آنے جانے کو دل نہیں کرے گا۔ "

اس کی بات میرے دل کو ایسی لگ گئی جیسے تیر پیوست ہوگیا ہو۔ واپسی پر فیملی کے ساتھ قراقرم ہائی وے سے آیا اور اگلے سال موسم گرما میں ان کے ساتھ پھر بابوسر کی بجائے قراقرم ہائی وے سے ہی آنا جانا کیا۔ اکیلے سفر کرتے اگر بابوسر پاس کھُلا ہو تو وہیں سے آتا جاتا ہوں اور ہر بار لولو سر جھیل پر کچھ دیر رک کر گاڑی سے باہر نکلتا ہوں۔ دولت علی کے بیٹے واسطے دعا کرتا ہوں اور پھر چل دیتا ہوں۔

Check Also

Retirement Ke Baad (3)

By Rao Manzar Hayat