Zulekha, Yousuf, Mobile Aur Insan
زلیخا، یوسف، موبائل اور انسان

یہ قصہ پرانا ہے مصر کی گلیوں میں، زلیخا کے محل میں ایک حسین جوان کے قدموں میں دنیا کی سب سے بڑی آزمائش رکھی گئی تھی برائی نے خود چل کر دروازہ کھولا اور کہا یوسف یہ لمحہ تیرے قدموں کا اسیر ہے آجا، رنگینیوں کا ذائقہ چکھ لے۔ مگر یوسفؑ نے جواب دیا میں اپنے رب کو ناراض نہیں کر سکتا۔ نظریں نیچی تھیں اور دل میں اللہ سے اس سر چڑھی برائی سے بچنے کی توفیق کی دعا جاری تھی۔ میں اپنے رب کو ناراض نہیں کرسکتا یہ ایک انکار تھا مگر تاریخ میں ایسا انکار ہے جس نے کردار کی کتاب کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔
آج وہی کہانی ہمارے ہاتھوں میں چھوٹی سی اسکرین کی صورت زندہ ہے موبائل فون یہی زلیخا ہے ٹک ٹاک کی شکل میں اور جتنی بھی شیطانی ایپس ہیں اصل میں یہ آجکی زلیخائیں ہیں دعوت دے رہی ہیں جہاں دروازہ کھلتا ہے جوان پھٹ سے سے اندر داخل ہوجاتا ہے دروازے بند کیے جا رہے ہیں، یہی نفس کہہ رہا ہے۔ آجا، رنگین لمحوں کا لطف لے لے اور یہی موقع ہے کہ ایک جوان یوسف کی طرح کہے میں اپنے رب کو ناراض نہیں کر سکتا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہم یوسف نہیں ہم زلیخا کے غلام بن چکے ہیں۔ ہماری راتیں لایعنی ویڈیوز کے نام دن جھوٹ اور حرام روزی کے نام۔ ہم نہ برائی سے بچنے کی سکت رکھتے ہیں نہ نیکی کو اپنانے کی ہمت۔ یہ چھوٹا سا موبائل جیب میں رکھا ہو مگر اس میں جہنم کے سارے دروازے بھی ہیں اور جنت کی ساری سبیلیں بھی۔ یہ انسان پر ہے کہ وہ کس راستے کا انتخاب کرتا ہے۔ مگر افسوس! ہم نے راستہ پہلے ہی چن لیا ہے۔ جھوٹ، فریب، بد دیانتی اور حرام خوری ہماری اجتماعی پہچان ہے۔
ہم نے یہ بھی دیکھا کہ وہ لوگ جو منبر پر بیٹھ کر نبیوں کے وارث کہلاتے ہیں، وہی دھوکے اور فراڈ میں سب سے آگے نکلے۔ یہ کیسا وارث ہے جو یوسف کے کردار کو بیان تو کرتا ہے مگر اپنی ذات میں زلیخا کی ہوس اور فرعون کی چالاکی چھپائے بیٹھا ہے؟ بندہ ناچیز پر بھی ایسے دو "معلمین" نے دھوکے کے پہاڑ توڑے۔ جمع پونجی پر ہاتھ صاف کیا اور پھر ایسے غائب ہوئے جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔ فون ملاؤ تو جواب نہیں۔ سوال کرو تو خاموشی۔ یہ کیسی وراثت ہے نبیوں کی؟ یہ کردار تو گلی کے اوباشوں سے بھی گیا گزرا ہے۔
لیکن! تاریخ کے آئینے میں ایک اصول ہمیشہ جگمگاتا ہے امتحان انسان کے کردار کو ننگا کرتا ہے۔ زلیخا کے دروازے ہوں یا موبائل کی اسکرینیں، یہ سب ہمارے اصل چہرے کو دنیا کے سامنے لے آتے ہیں۔ یوسف انکار کرکے محبوبِ خدا ٹھہرتے ہیں اور ہم موبائل کے بٹن دبا کر خود کو شیطان کے مسافر بنا لیتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہم چاہیں تو یوسف بن جائیں اپنے نفس کو کہہ دیں میں یہ نہیں کروں گا۔ یا پھر ہم چاہیں تو شیطان کے راستے پر چل پڑیں اور انجام کے انتظار میں رہیں۔ یاد رکھیے! صاحب کردار ہی خدا کا محبوب بندہ بنتا ہے۔ جو انکار کر لے گا، وہی کامیاب ہے۔ جو زلیخا کے سامنے "لا" کہے گا، وہی موبائل کی زلیخاؤں کے سامنے بھی جیت جائے گا۔
امتحان انسان کے کردار کو ننگا کرتا ہے۔ زلیخا کے دروازے ہوں یا موبائل کی اسکرینیں، یہ سب ہمارے اصل چہرے کو دنیا کے سامنے لے آتے ہیں۔ یوسف انکار کرکے محبوبِ خدا ٹھہرتے ہیں اور ہم موبائل کے بٹن دبا کر خود کو شیطان کے مسافر بنا لیتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہم چاہیں تو یوسف بن جائیں، اپنے نفس کو کہہ دیں میں یہ نہیں کروں گا۔ یا پھر ہم چاہیں تو شیطان کے راستے پر چل پڑیں اور انجام کے انتظار میں۔
زلیخا اور یوسف کی کہانی آج بھی جاری ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ محل کی دیواریں بدل کر موبائل کی اسکرین بن گئی ہیں۔ اب فیصلہ ہمارا ہے
ہم یوسف کے وارث بنتے ہیں یا زلیخا کے غلام۔

