Zila Astor Ke Sath Ye Zulm Kyun?
ضلع استور کے ساتھ یہ ظلم کیوں؟

گلگت بلتستان کی پہلی اسمبلی جب بنی تھی تو اسوقت بارہ نشستیں تھیں۔ وقت گزرا ترقی کے شادیانے بجے، نشستیں بڑھتی گئیں، آج چوبیس ہوگئیں۔ لیکن استور کی آج بھی وہیں دو نشستیں ہیں نصف صدی گزرنے کے بعد بھی استور وہی دو نشستوں کے پنجرے میں قید ہے یہ قصہ سن کر کوئی انجانے میں سمجھ بیٹھے کہ شاید استور کے باسی کسی اور سیارے کے لوگ ہیں یا ان کی تعداد گنتی کے چند سو افراد پر مشتمل ہے۔ حالانکہ یہ خطہ ہزاروں جوانوں، کسانوں، محنت کشوں اور اہلِ قلم کا ہے، مگر نمائندگی کے حساب سے استور گویا اسمبلی کے باہر کھڑا ایک یتیم ہے۔ یہ صرف نمائندگی کی کمی نہیں، یہ شعوری بے حسی ہے۔
استور کے ساتھ یہ ناروا سلوک اس بات کا اعلان ہے کہ یہاں کے عوام کی آواز کا وزن باقی اضلاع کے مقابلے میں آدھا بھی نہیں۔ جب آپ کا نمائندہ ہی کم ہو تو آپ کی آواز ایوان میں کون سنے گا؟ نتیجہ وہی ہے جو آج ہم دیکھ رہے ہیں دو سال سے استور کی زمین پر حکومت کا سایہ نام کو بھی نہیں۔ افسران دفتر کی بجائے اپنی دکانوں پر بیٹھے ہیں، تنخواہ عوام کے ٹیکس سے لیتے ہیں مگر خدمت اپنے کاروبار کی کرتے ہیں۔ انتظامیہ سو رہی ہے اور عوام بے بس ہے قدرت نے استور کو جغرافیے کا ہار پہنایا ہے۔ یہ سیاحت کا خزانہ ہے، پہاڑ، جھیلیں، چراگاہیں، سب کچھ ہے۔ لیکن انفراسٹرکچر نہ ہونے کے باعث اس کی خوبصورتی دنیا سے چھپی ہوئی ہے۔
جن سڑکوں سے سیاح گزر کر آسکتے تھے وہ کھنڈرات میں بدل گئی ہیں۔ ہوٹل، سہولتیں، بجلی اور پانی سب ایک خواب ہیں۔ اس جنت کو ایسا جہنم بنا دیا گیا ہے کہ خود یہاں کے باسی نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ مگر سیاستدان وہ اپنی مرضی کی دنیا میں ہیں۔ شمس لوں جیسے ٹاؤٹ دن رات حساب لگا رہے ہیں کہ اگلا الیکشن کس پارٹی کی چھتری تلے لڑنا ہے۔ عوام کے مسائل ان کی سیاست کا ایجنڈا نہیں۔ ان کے لئے اصل سوال یہ ہے کہ طاقت کے ساتھ کس کا رشتہ مضبوط ہو۔ ان کا ہر فیصلہ ذاتی مفاد کا غلام اور ہر جملہ طاقت کی چاپلوسی کا آئینہ ہے۔
یہی کہانی پورے گلگت بلتستان کی ہے۔ نمائندے عوام کے نہیں، طاقت کے ہیں۔ وہ غلام ہیں، ٹاؤٹ ہیں، کرائے کے سپاہی ہیں جو کبھی اسلام آباد کے دربار میں جھک کر سلامی دیتے ہیں، کبھی کوٹھیوں میں بیٹھ کر اپنی مالا جپتے ہیں۔ عوام کی حیثیت محض ایک ووٹ دینے والے ہجوم کی ہے، جنہیں پانچ سال میں ایک بار لبھایا جاتا ہے اور پھر طاقِ نسیاں پر رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ جو استور کے دو حلقے ہیں، یہ محض اعداد نہیں۔ یہ دو قبرستان ہیں جہاں عوام کی امیدیں دفن ہیں۔ ایک قبر پر لکھا ہے نمائندگی کا قتل اور دوسری پر انصاف کی گمشدگی۔ باقی اضلاع کے نمائندے بڑھتے گئے، طاقت کے سائے پھیلتے گئے، مگر استور کے حصے میں بس دھوکا آیا۔ کیا استور کی یوتھ اور عوام ہمیشہ یہ تماشا دیکھتے رہیں گے؟ یا وہ دن بھی آئے گا جب اس دو نشستوں کا قفل ٹوٹے گا اور استور کی آواز ایوان میں پورے حق کے ساتھ گونجے گی؟
فی الحال تو یہی لگتا ہے کہ یہاں کے سیاستدانوں کے لئے استور ایک سیڑھی ہے، جس پر چڑھ کر وہ اسلام آباد کے ایوانوں میں داخل ہوتے ہیں اور پھر واپس پلٹ کر اپنی ہی سیڑھی کو جلا دیتے ہیں۔ اے استور کے جوانو! تمہاری محرومی کا علاج تمہارے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ یاد رکھو، طاقت کے درباروں سے کبھی انصاف نہیں ملتا، انصاف چھینا جاتا ہے۔ اگر آج تم نے خاموشی کو شعار بنایا تو کل بھی تمہارا نام صرف دو نشستوں کے ساتھ لکھا جائے گا۔ اپنی بیداری کو ہتھیار بناؤ، اپنی یکجہتی کو قلعہ بناؤ اور اپنی محرومی کو احتجاج کی زبان دو۔ طاقت کے غلاموں کے سائے لمبے ضرور ہیں، مگر وہ سایے ہیں، اصل وجود نہیں۔ تمہاری ہمت اور اتحاد سورج کی وہ روشنی ہے جو ان سائے کو مٹا سکتی ہے۔ اٹھو اور اپنی سرزمین کے حق میں بولنا سیکھو، ورنہ یہ تاریخ ہمیشہ یہی لکھے گی۔ استور کے پاس سب کچھ تھا، بس اپنی آواز نہ تھی۔
سوال یہ ہے کہ جب گلگت بلتستان کی آبادی اور جغرافیہ کی بنیاد پر باقی اضلاع کو نئی نشستیں مل سکتی ہیں تو استور کیوں نظر انداز ہے؟ کیا استور کے لوگ شہری نہیں؟ کیا ان کا ووٹ آدھا شمار ہوتا ہے؟ یہ دراصل سیاسی بےحسی اور مقامی نمائندوں کی کمزوری کا مجموعہ ہے۔ ابھی الیکشن سے پہلے لوگوں کو مزید نشستوں کا اضافہ پر آواز اٹھائی چاہئے۔

