Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Well Done Senator Mushtaq Ahmad Khan

Well Done Senator Mushtaq Ahmad Khan

ویلڈن سینٹر مشتاق احمد خان

ہمارے ہاں جمہوریت کا نام سن کر دل میں ایک عجیب سی ہلچل پیدا ہوتی ہے، جیسے کوئی پرانی کہانی کا کردار جو کبھی زندہ تھا مگر اب صرف کاغذوں پر سانس لے رہا ہے۔ یاد آتی ہے وہ قدیم یونانی جمہوریت جہاں افلاطون اور ارسطو کی بحثیں ہوتی تھیں، یا پھر فرانسیسی انقلاب کی وہ گونج جو "آزادی، مساوات، اخوت" کا نعرہ بلند کرتی تھی۔ مگر یہاں، اس سرزمینِ پاک پر، جمہوریت ایک ایسا ماسک ہے جو چہروں پر چڑھا تو دیا جاتا ہے، لیکن اس کے پیچھے وہی پرانی غلامی کی زنجیریں جھنکارتی رہتی ہیں۔

ہم مسلمان ہیں، قرآن کی آیات ہمارے سینوں میں محفوظ ہیں، حج اور حفظ کی سندوں سے ہمارے نام جڑے ہیں، مگر کیا ہم واقعی مسلمان ہیں؟ ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ وہ فرائض جو اللہ نے ہم پر فرض کیے، وہ تو ہم نے اپنے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیے۔ ہر کام، ہر فیصلہ، بس اپنی جیب اور خواہشات کی خاطر۔ ڈالر کی چمک نے ہمیں اتنا اندھا کر دیا ہے کہ اپنے ہی بھائیوں کو مار رہے ہیں اور بہانہ یہ کہ یہ دہشت گرد ہیں۔

دھماکوں کے ملبے سے جب چھوٹے بچوں کی لاشیں نکلتی ہیں، تو ندامت کی بجائے ہم کہتے ہیں، "یہاں تو دہشت گرد چھپے تھے"۔ جھوٹ کی یہ داستاں صبح سے شام تک چلتی ہے، منہ لال کرکے بولتے ہیں، مگر حقیقت سے کب تک آنکھیں چرائیں گے؟ خدا تو سب دیکھ رہا ہے، اس کی عدالت میں ایک دن پیش ہونا ہے۔ وہاں، آپ کی بڑھکیں نہیں چلیں گی۔ ظلم کی فلم چلے گی، آپ کا ہر عضو گواہی دے گا کہ طاقت کے نشے میں آپ نے کس کے ساتھ کیا سلوک کیا۔

اصل جہاد سے ہم نے منہ موڑ لیا ہے۔ جہاں مظلوم مسلمان پکار رہے ہیں، وہاں ہماری آواز خاموش ہے۔ بیت المقدس کی حفاظت ہماری ذمہ داری نہیں؟ وہاں تو ڈالر اور ریال نہیں ملتے، اس لیے ترجیحات میں شامل نہیں۔ مگر جہاں ڈالر کی بارش ہوتی ہے، وہاں ہم سب سے آگے۔ ہم گرے ہوئے مسلمان ہیں، حوس کے مارے، نفس کے پجاری۔ سلام ہو سینیٹر مشتاق احمد صاحب کی جرأت اور بہادری پر، جو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر مظلوموں کی خدمت کے لیے نکلے۔ اللہ انہیں خیریت سے منزل تک پہنچائے اور ان کی آرزو پوری کرے۔

یہ ملک محفوظ ہے، نہ عوام۔ چور ڈاکو مفاد پرست سب اپنی عیاشیوں میں مست ہیں لوٹو اور موجیں کرو۔ عوام مرتی ہے تو مر جائے۔ ایک تلخ حقیقت ہے جو ہمیں جھنجھوڑتی ہے۔ کیا ہم سدھریں گے؟ توبہ کریں گے؟ راہِ راست پر آئیں گے؟ ورنہ تاریخ ہمیں ایک اور ناکام قوم کے طور پر یاد رکھے گی، جہاں جمہوریت کا خواب غلامی کے عکس اور طاقتوروں کے ڈنڈے میں گم ہے لفظوں میں جمہوریت باقی ہے۔

خدمتِ خلق ہر کسی کے نصیب نہیں بلکہ یہ اللہ کے خاص کرم کی نشانی ہے۔ انسان اپنی خواہشات اور مفادات کے بوجھ تلے دب کر دوسروں کے درد سے غافل ہو جاتا ہے، مگر جن پر اللہ کی توفیق اور فضل ہوتا ہے وہی دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ مشتاق احمد صاحب کے دل میں درد بھی ہے اور اللہ کا فضل بھی اسلئے وہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر مظلوموں عوام کی خدمت خلق کرنے نکلے ہیں ہمارے سربراہ اپنی عوام پر رحم نہیں کھاتے ہیں تو دوسروں کے لئے یہ کیا سوچیں گے یہ چاہیں تو اس ملک میں امن قائم کرنا ان کے لیے مشکل نہیں، مگر المیہ یہ ہے کہ جان بوجھ کر انسانیت کو الجھایا گیا ہے اور بائیں ہاتھ کی طاقت سے امن و سکون کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔ یہاں جھوٹ بولنے والوں کو آزادی اور داد ملتی ہے، مگر جو سچ کہے وہی سزا اور پابندی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ یہی سب سے بڑاالمیہ ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan