Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Tamatar Ka Inteqam

Tamatar Ka Inteqam

ٹماٹر کا انتقام

کہتے ہیں مارکیٹ اوپر گئی ہے، میں پوچھتا ہوں کون سی مارکیٹ؟ وہ جہاں ضمیر نیچے گرتا ہے اور قیمتیں آسمان چھوتی ہیں؟ وہ جہاں انسانیت خسارے میں ڈوبتی ہے اور منافع کے گراف چڑھتے ہیں؟ وہ جہاں ایک ٹماٹر پچھتر روپے کا ہو جاتا ہے اور ایک انسان کی قیمت پچیس پیسوں سے بھی کم رہ جاتی ہے؟

یہ قوم بڑے مزے سے جھوٹ سنتی ہے۔ ٹی وی اسکرینوں پر خوش لباسی میں لپٹے "دانشور" مسکراتے ہیں۔ کہتے ہیں اسٹاک مارکیٹ نے نیا ریکارڈ قائم کیا، ان کی مسکراہٹ میں وہی چمک ہے جو جلتی جھونپڑی کے سامنے تصویریں کھنچوانے والے حکمران کے چہرے پر ہوتی ہے۔ یہ مسکراہٹ حقیقت کو چھپاتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ مارکیٹ چند لوگوں کی عیاشی کا نام ہے۔

یہ کوئی نام نہیں، ایک استعارہ ہے۔ یہ اس نظام کا چہرہ ہے جو عوام کی جیب کاٹ کر "معاشی استحکام" کے لیکچر دیتا ہے۔ یہ وہ ہاتھ ہیں جو گودام بھرتے ہیں جبکہ غریب کے چولہے کی آگ بجھتی ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں معیشت سنبھل گئی!

مگر حقیقت میں صرف ان کے بنک اکاؤنٹس سنبھلتے ہیں۔ ایک ٹماٹر نے آج اس نظام کے سارے نقاب اتار دیے۔ وہ لال رنگ، جو کبھی کھانوں میں ذائقہ بھرتا تھا اب غصے، شرمندگی اور نفرت کا رنگ بن گیا ہے۔

ٹماٹر اب محض سبزی نہیں یہ ایک احتجاج ہے۔ یہ وہ لال آئینہ ہے جس میں پورا حکومتی ڈھانچہ ننگا نظر آتا ہے۔ معاشی ترقی کے گراف بلاشبہ اوپر جا رہے ہیں مگر عوام کی پسلیاں نیچے اتر رہی ہیں۔

ڈالر کو مستحکم کہا جاتا ہے۔ مگر ماں کے آنسوؤں کا بہاؤ کبھی مستحکم نہیں ہوتا۔ پالیسی ساز اب اعداد و شمار کے جادو میں ماہر ہو گئے ہیں۔ بھوک کو مہنگائی کی شرح اور غربت کو "شرحِ افراطِ زر" کہہ کر وہ اپنے ضمیر کو مطمئن کر لیتے ہیں جب وہ کہتے ہیں مارکیٹ اوپر گئی ہے!

تو ان سے پوچھو تمہاری اس مارکیٹ میں قوم کے صبر کی لاشیں بک رہی ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں معیشت مستحکم ہے! تو ان سے کہو ہاں، ظالموں کی معیشت ہمیشہ مستحکم رہی ہے کیونکہ اس کا ایندھن غریبوں کا لہو ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کا بحران کبھی روپے کا نہیں تھا۔

یہ ضمیر کا بحران ہے انصاف کا بحران ہے۔ یہ وہ مملکت ہے جہاں اعداد و شمار کا جادو چلتا ہے اور حقیقت گلیوں میں بھوک بن کر بھٹکتی ہے۔

تاریخ گواہ ہے جب وزیروں نے ترقی کی دہائی دی اور میڈیا نے معاشی استحکام" کے ترانے گائے۔ تب ایک ٹماٹر اٹھا اور بولا اے جھوٹو! میں پچھتر روپے کا ہوگیا ہوں! اس ایک جملے نے سارے دعوؤں کی قلعی کھول دی۔

وہ لمحہ اس قوم کی معیشت کے تابوت پر لال مہر بن گیا۔ ٹماٹر کا یہ انتقام محض ایک سبزی کی بغاوت نہیں بلکہ ایک ایسی قوم کی آواز ہے جو جھوٹ کے بوجھ تلے دب گئی ہے۔ یہ آواز اب گونجے گی اور شاید ایک دن اس نظام کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دے گی۔

پاکستان کی معیشت گزشتہ چند سالوں سے شدید دباؤ کا شکار ہے اور اس کی بنیادی وجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے جو عوام کی زندگی کو مشکل بنا رہی ہے۔ مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ، روپے کی قدر میں کمی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ معاشی مسائل کو مزید گھمبیر کر رہا ہے۔

مہنگائی کی وجہ سے روزمرہ کی اشیاء، جیسے خوراک، ایندھن اور بجلی، کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ غریب اور متوسط طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے، کیونکہ ان کی آمدنی مہنگائی کے تناسب سے نہیں بڑھ رہی۔ اس کے علاوہ، توانائی کے بحران اور صنعتی پیداوار میں کمی نے بھی معاشی ترقی کو روک رکھا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی اور برآمدات کا کم ہونا ملکی کرنسی پر دباؤ ڈال رہا ہے۔

حکومتی پالیسیوں پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ قلیل مدتی اقدامات پر توجہ دیتی ہیں، لیکن طویل مدتی اصلاحات کی کمی نظر آتی ہے۔ ٹیکس نظام میں شفافیت کا فقدان اور بدعنوانی بھی معاشی بدحالی کی بڑی وجوہات ہیں۔

اس صورتحال سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت معاشی اصلاحات کو ترجیح دے، زراعت اور صنعت Almondsbury کی صنعتیں فروغ دے اور توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے قابل تجدید توانائی کے منصوبوں پر عمل کرے۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے کرنسی کی قدر کو مستحکم کرنا اور سماجی تحفظ کے پروگرامز کو مضبوط کرنا بھی ناگزیر ہے۔

عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ پانی اور بجلی کے ضیاع کو روکنے اور مقامی مصنوعات کے استعمال سے معیشت کو سہارا دیا جا سکتا ہے۔ پاکستانی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے، ورنہ مہنگائی کا یہ عذاب عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا کرے گا۔ حکومت کو جھوٹ بولنے کی بجائے بہتر اصطلاحات کرنے کی ضرورت ہے جھوٹ سے کب تک عوام کو بیوقوف بنایا جائے گا آج ٹماٹر نے انکے تمام جھوٹ کا پردہ چاک کردیا کل آنے والے دنوں میں کوئی اور چیز انکے جھوٹ پر سر پیٹتے مزید مشکلات سے دو چار کردے گی۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam