Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Skardu Mein Tahavzat Par Pehli Sarkari Zarb

Skardu Mein Tahavzat Par Pehli Sarkari Zarb

سکردو میں تجاوزات پر پہلی سرکار کی ضرب

بازار کیا تھا ایک میدان جنگ کہیں ٹھیلا خیمہ گاڑے بیٹھا تھا کہیں دکاندار نے اپنے تختے کو ریاستِ سکردو کا سرحدی ستون بنا رکھا تھا۔ پیدل چلنے والے بیچارے قیدیوں کی طرح کبھی ایک ڈبے سے بچتے کبھی دوسرے کے ڈھیر سے ٹکرا جاتے سڑکیں ایسی لگتی تھیں جیسے کسی دکاندار کے صحن میں گھس آئے ہوں اور معافی مانگتے ہوئے واپس پلٹیں لیکن کل رات منظر بدلا انتظامیہ کلہاڑی لے کر نکلی اور برسوں کے جنگل پر پہلی ضرب لگی۔ جو تختے اور سامان عوام کی سانس روکنے کا سبب بنے ہوئے تھے ایسا گھٹن ماحول تھا تھا کہ سانس لینا بھی دشور زمین بوس ہوئے۔ یہ منظر دیکھنے والوں کے لیے عجیب بھی تھا اور خوشگوار بھی۔ عجیب اس لیے کہ برسوں سے ہم نے قانون کو سویا ہوا دیکھا تھا اور خوشگوار اس لیے کہ پہلی بار یہ جاگا بھی تو سب پر برابر چلا۔

اصل تعریف یہی ہے بلا تفریق ورنہ اس ملک میں اکثر قانون بڑا دکاندار کے سامنے اندھا ہو جاتا ہے اور چھوٹے ٹھیلے والے پر ببر شیر بن جاتا ہے۔ لیکن کل رات ببر شیر نے سب کو یکساں دھاڑ سنائی۔ انجمنِ تاجران کا بھی امتحان ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس اقدام کو کاروبار دشمنی کہہ کر سڑکیں بند کریں گے یا شہر کو آزاد کرانے کی جنگ میں انتظامیہ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ اگر ان کے دلوں میں واقعی شہر کا درد ہے تو وہ خوش ہوں گے کہ اب گاہک سکون سے چل کر ان کی دکان تک پہنچ سکے گا۔ لیکن اگر دل صرف پھیلاؤ کے منافع سے بندھے ہیں تو پھر کل کا سامان پھر وہیں ہوگا جہاں کل رات ہٹایا گیا۔

ہمیں معلوم ہے ہمارا معاشرہ ایک غلط عادت کا قیدی ہے۔ عادت یہ ہے کہ پہلے سب شور مچائیں گے احتجاج کریں گے سیاست دان بیانات دیں گے پھر تھک کر چپ ہو جائیں گے اور بازار دوبارہ اپنی پرانی شکل میں کھچا کھچ سے بھر جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو یہ کریک ڈاؤن بھی محض ایک رات کا خواب ثابت ہوگا۔ اے سی اور ڈی سی صاحبان کو سلام کہ انہوں نے اس گندے تالاب میں پہلی کنکری ڈالی۔ لیکن یاد رکھنا ہوگا کنکری کے بعد لہریں تو اٹھتی ہیں، مگر اگر اور پتھر نہ پھینکے جائیں تو پانی دوبارہ ساکت ہو جاتا ہے بلکہ پہلے سے زیادہ بدبودار۔

سکردو کو سانس لینے دو یہ شہر صرف ہمارے نہیں دنیا کے سیاحوں کا بھی ہے۔ اگر ہم نے اپنی لالچ کی وجہ سے راستے تنگ رکھے تو دنیا ہنسے گی کہ یہ لوگ اپنے ہی شہر کے قیدی ہیں۔ یہ کلہاڑی پہلی بار چلی ہے۔ دعا ہے کہ یہ صرف ایک رات کی تلوار نہ ہو بلکہ روزانہ کی روشنی بنے۔ ورنہ بازار پھر جنگل ہوگا اور عوام پھر شکار۔ بازار کسی بھی شہر کا حسن ہوتے ہیں اگر اس حسن کو کچروں کا ڈھیر بنائیں تو کوئی بھی گاہک، سیاح اس بازار میں نہیں گھسے گے بلکہ دور سے اس منظر کو دیکھ کر بائی بائی کریگا بازاروں کی رونق کو ناجائز تجاوزات سے پاک کریں اور پرسکون زندگی جئیں۔

لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ سب سے بڑا امتحان اب شروع ہوا ہے۔ اگر یہ عمل چند دن کا شوق بن کر رہ گیا، اگر دکاندار کل پھر سے پھیلنے لگے، اگر انجمن تاجران پھر سے "مصلحت" کے جھنڈے تلے دب گئی، تو یہ ساری محنت رائیگاں جائے گی۔ اس لیے اصل ضرورت ایک مستقل نظام کی ہے۔ تجاوزات کا صفایا صرف ایک رات کا عمل نہیں، یہ ایک مسلسل جنگ ہے نفس کے خلاف بھی اور مفاد پرستی کے خلاف بھی۔

سکردو کو سانس لینے دو۔ اس کے بازاروں کو چلنے دو۔ عوام کو آزاد راستے دو۔ یہی وہ شہر ہے جو دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کے قدموں سے رونق پاتا ہے۔ اگر یہی شہر بدصورت اور تنگ نظر لگے تو پھر کون یہاں آئے گا؟ یہ کریک ڈاؤن ایک ابتدا ہے اور دعا ہے کہ یہ ابتدا کسی اچھی صبح کی بشارت ثابت ہو۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam