Sirf Munafqat
صرف منافقت

ہمارے معاشرتی اور سیاسی منظرنامے پر نظر ڈالیں تو ایک ہی سچائی ابھر کر سامنے آتی ہے کہ سب کچھ منافقت کے گرد گھوم رہا ہے۔ میڈیا خریدا جاتا ہے تاکہ وہ حقیقت کی بجائے وہی دکھائے جو چند طاقتور چاہتے ہیں۔ ججز کو خریدا جاتا ہے تاکہ انصاف کے ترازو کو اپنی مرضی کے مطابق جھکایا جا سکے اور پھر نعرہ یہی لگایا جاتا ہے کہ "ہم ہی تمہارے لئے قابلِ قبول ہیں، باقی سب جھوٹ ہے"۔ یہی اصل المیہ ہے کہ سچ دبایا جاتا ہے، انصاف بکتا ہے اور عوام کو جھوٹے نعروں میں الجھا کر بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ جب تک یہ منافقت کا کھیل جاری رہے گا، نہ معاشرہ بدلے گا اور نہ نظام درست ہوگا۔ اصل تبدیلی اس دن آئے گی جب لوگ ان جھوٹے دعوؤں اور خریدے گئے اداروں کو پہچان کر سچ کا ساتھ دیں گے۔
چالیس ارب فائر وال پر، بارہ ارب میڈیا کے اشتہارات پر۔ 50 افراد پر مشتمل فوج ظفر موج کی جاپان کی سیر وتفریح، جبکہ ڈیم بنانے کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں اور نہ ہی کوئی فکر ہے اگر فکر ہے تو کریپشن کی مال بنانے کی باہر ملک جائیدادیں بنانے کی چور چوکیدار سبھی ایک پیج پر ملک اور عوام جائے بھاڑ میں بس نانی ہندہ کی رونقیں لگی رہیں۔ یہ ہے اس عہد کے حکمرانوں کا نیا ایجنڈا، یہ ہے ان کی ترجیحات اور یہ ہے ان کے خوابوں کی تعبیر۔
قوم پوچھے بھی تو کس سے؟ وہ حکمرانوں سے جو اپنی لیٹرین پر تصویر لگوانے میں خوش ہیں، یا اس میڈیا سے جو بارہ ارب کے اشتہار ہضم کرکے سچائی کے بجائے جھوٹ کا منجھن بیچ رہے ہیں پانی کے ذخائر ختم ہورہے ہیں، زمین پیاسی ہے، دریاؤں کا پیٹ بھرا ہوا ہے اور شہروں کی گلیاں ڈوبی ہوئی ہیں۔ سیلاب گھروں کو بہا لے جاتا ہے، بچے مٹی میں دفن ہوتے ہیں، عورتیں روتی ہیں، بوڑھے ہاتھ اٹھا اٹھا کر سوال کرتے ہیں ہمارا قصور کیا ہے؟ مگر جواب کہاں سے آئے؟
وزیروں کی زبان پر صرف اپنی کرسی کے قصیدے ہیں حرام خوری کے سپنے ہیں یہ ملک ایک عجیب کھیل بن چکا ہے۔ اوپر والے اشتہار کھاتے ہیں، نیچے والے حرام کھاتے ہیں۔ بندر کا تماشہ جیسا کھیل بام عروج پر ہے۔ حکمران خزانے کے صندوق توڑتے ہیں، عوام بھوک کے مارے ایک دوسرے کی ہڈیاں اور درمیان میں میڈیا ہے، جو ایک ایسا آئینہ ہے جس میں صرف میک آپ نظر آتا ہے، زخم نہیں۔ جب سیلاب آتا ہے تو لوگ بھینسیں چراتے ہیں، امدادی سامان لوٹتے ہیں اور پھر بڑے فخر سے کہتے ہیں ہم زندہ قوم ہیں!
ہاں۔ زندہ تو ہیں، لیکن مردار خوری پر۔ ہماری زندہ دلی کا پیمانہ یہ ہے کہ آسمان سے عذاب اترتا ہے اور زمین پر جشن برپا ہوتا ہے۔ یہ قوم گزری تمام قوموں کا ریکارڈ توڑنے جا رہی ہے۔ عاد و ثمود کا ذکر قرآن میں بطور عبرت آیا، مگر ہم شاید چاہ رہے ہیں کہ تاریخ میں ہمارا ذکر بطور عبرت نہیں بلکہ بطور انتہائی درجے کے عبرتناک لکھا جائے۔ حکمرانوں کی جیبیں بھری ہوئی ہیں عوام کی آنکھیں خالی۔ ایوانوں میں تھری پیش پہنے قہقہے ہیں، گلیوں میں سسکیاں۔
بجٹ میں ڈیم کے لیے کچھ نہیں، مگر فیس بک پر فائر وال کھڑی کرنے کے لیے اربوں ہیں۔ میڈیا کی زبان کو خریدنے کے لیے اربوں ہیں۔ قوم کے لیے بابا جی کا ٹھلو یعنی کچھ نہیں۔ سچ پوچھیں تو یہ ملک اب چل نہیں رہا، گھسٹ رہا ہے۔ حکمرانوں کے کندھوں پر نہیں، عوام کے گناہوں پر اور جب قوم اور حکمران دونوں ہی ایک ہی صف میں کھڑے ہوں، تو پھر تاریخ فیصلہ کرتی ہے، فیصلہ سخت، فیصلہ کڑا اور فیصلہ ناقابلِ واپسی۔ یہ جو منظر دیکھنے کو مل رہے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے دوزخ اس قوم سے بھر دی جائے گی کیونکہ اعمال میں سوائے گناہوں کے کچھ بھی نہیں ہے۔

