Siasi Partiyan Mafadat Ki Bhatti Aur Awam Endhan
سیاسی پارٹیاں مفادات کی بھٹی اور عوام ایندھن

گلگت بلتستان وہ خوبصورت خطہ جو قدرتی حسن اور ثقافتی ورثے سے مالا مال ہے لیکن سیاسی طور پر ایک ایسے دلدل میں پھنسا ہوا ہے جہاں عوام کی آواز دب جاتی ہے اور ذاتی مفادات کے بھنور میں میں گم ہو جاتی ہے۔ آج ہم بات کریں گے ان سیاسی پارٹیوں کی جو دعویٰ تو خطے کے مفادات کی حفاظت کا کرتی ہیں مگر حقیقت میں یہ اپنے لیڈروں کے ذاتی امپائر کی تعمیر کے لیے عوام کو ایندھن کی طرح جلاتی رہتی ہیں۔ یہ مضمون ایک کوشش ہے کہ عوام میں شعور بیدار کیا جائے تاکہ وہ اپنے حقوق کی پہچان کریں اور ایک نئی ایماندار اور باصلاحیت قیادت کا انتخاب کریں۔
گلگت بلتستان کی بیشتر سیاسی پارٹیاں چاہے وہ قومی سطح کی ہوں یا مقامی عوام کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے اپنے لیڈروں کے خاندانی اور مالی مفادات کی حفاظت کرتی ہیں۔ یہ پارٹیاں انتخابات کے موقع پر بڑے بڑے وعدے کرتی ہیں روزگار، تعلیم، صحت اور بنیادی سہولیات کی فراہمی۔ مگر جب اقتدار ملتا ہے تو یہ وعدے ہوا میں اڑ جاتے ہیں۔ عوام کو ہار اور جیت کا جھانسہ دیا جاتا ہے اس بار ہم جیتیں گے تبدیلی آئے گی مگر ہر بار جیت ان کی ہوتی ہے اور ہار عوام کی۔
سوچیں یہ پارٹیاں کب آپ کے حقیقی مفادات کی ترجمان بنیں گی جب برفانی تودوں سے متاثر گھروں کی بحالی کی بات آئی تو کیا یہ پارٹیاں میدان میں تھیں؟ جب سیاحت کو فروغ دینے کی ضرورت تھی تو کیا انہوں نے کوئی ٹھوس منصوبہ بنایا؟ نہیں یہ تو بس اپنے خاندانوں کو نوکریاں دلوانے، ٹھیکے بانٹنے اور کرپشن کے جال بچھانے میں مصروف رہتی ہیں۔ عوام ان کی بھٹی کا ایندھن بنتے ہیں ووٹ دیتے ہیں ریلیاں نکالتے ہیں مگر بدلے میں ملتا ہے صرف مایوسی اور غربت کا تسلسل۔
اب ایک بنیادی سوال روزمرہ زندگی میں ہمیں ان سیاسی پارٹیوں کی کتنی ضرورت پڑی ہے؟ جب آپ ہمیں کو بیماری میں دوا چاہیے تو کیا یہ پارٹیاں ہسپتال پہنچاتی ہیں؟ جب بچوں کی تعلیم کا مسئلہ ہو تو کیا یہ سکول بناتی ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ عوام کی حقیقی ترقی ان پارٹیوں سے آزاد ہے۔ دنیا بھر میں تبدیلیاں آ رہی ہیں ٹیکنالوجی، کاروبار اور تعلیم کے میدان میں انقلاب برپا ہے۔ گلگت بلتستان کے نوجوان سیاحت، ای کامرس اور ہینڈی کرافٹس جیسے شعبوں میں اپنے پاؤں جما رہے ہیں بغیر کسی پارٹی کی مدد کے۔
آپ کے گرد ہی دیکھیں وہ لوگ جو کامیابی کی منازل طے کر رہے ہیں وہ انسپائریشن کا ذریعہ ہیں۔ ایک نوجوان جو اپنے گاؤں میں سیاحتی گیسٹ ہاؤس کھول کر روزگار پیدا کر رہا ہے یا ایک خاتون جو ہینڈی کرافٹس کو آن لائن بیچ کر خودمختار بن رہی ہے یہ لوگ حقیقی تبدیلی کے معمار ہیں۔ دنیا سے سیکھیں چین کی اقتصادی ترقی، بھارت کی سٹارٹ آپ انقلاب، یا یورپ کی گرین انرجی کی طرف منتقلی۔ یہ سب بتاتے ہیں کہ ترقی ذاتی کاوش اور نئی سوچ سے آتی ہے نہ کہ موروثی سیاست سے۔
سب سے بڑا مسئلہ موروثی سیاست ہے وہ نظام جہاں اقتدار باپ سے بیٹے، بھائی سے بھتیجے کو منتقل ہوتا رہتا ہے۔ یہ خاندانی کاروبار بن چکا ہے، جہاں قابلیت کی بجائے خونی رشتے اہمیت رکھتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں ایسے کئی لیڈر ہیں جو نسلوں سے اقتدار پر قابض ہیں مگر خطے کی حالت جوں کی توں ہے۔ یہ موروثی نظام عوام کی ترقی کو روکتا ہے کیونکہ یہ نئی آوازوں کو دباتا ہے۔ اب جب الیکشن قریب ہیں تو وہی خاندان گاوں گاوں جا کر ووٹ کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں چار سال تک حلقے سے غائب یہ گرگٹی مخلوق وقت الیکشن کو قریب دیکھ کر نئے انداز خدمت سے عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگاتے نظر آرہے ہیں اب عوام کو بھی عہد کرنا ہوگا کہ اس موروثی سیاست کنارہ کشی کا بلکہ دو ٹوک الفاظ میں کہنا ہوگا کہ اب ہمیں آپکی ضرورت نہیں اب آپ بیٹھ جائیں کسی اور کو موقع دیں۔
وقت ہے عوام کو چاہیے کہ موروثی سیاست کو ریجیکٹ کریں۔ حوصلہ شکنی کریں ان کی جو خاندانی وراثت پر الیکشن لڑتے ہیں۔ اس کی بجائے نئے، ایماندار اور باصلاحیت نمائندوں کو چنیں۔ وہ لوگ جو تعلیم یافتہ ہوں، جو عوامی مسائل کو سمجھتے ہوں جو کرپشن سے پاک ہوں۔ مثلاً، مقامی کمیونٹیز میں سے ایسے لیڈرز کو سامنے لائیں جو ماحولیاتی تحفظ، تعلیم اور صحت پر کام کر رہے ہوں۔ ووٹ کا استعمال ایک ہتھیار کی طرح کریں نہ کہ ذاتی مفادات کی بھٹی کو جلانے کے لیے
یہ وقت ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام جاگیں۔ اپنے حقوق کی پہچان کریں اور سیاسی پارٹیوں کو بتائیں کہ وہ اب ایندھن نہیں بنیں گے۔ سوشل میڈیا، کمیونٹی میٹنگز اور تعلیمی پروگراموں کے ذریعے شعور پھیلائیں۔ نئی نسل کو بتائیں کہ ترقی کا راز ذاتی محنت اور عالمی انسپائریشن میں ہے نہ کہ جھوٹے وعدوں میں۔ اگر ہم سب مل کر موروثی سیاست کو ریجیکٹ کریں اور نئی قیادت کو موقع دیں، تو گلگت بلتستان ایک خوشحال، ترقی یافتہ خطہ بن سکتا ہے۔ یاد رکھیں، تبدیلی آپ سے شروع ہوتی ہے ووٹ دیں آواز اٹھائیں اور اپنی منزل خود طے کریں۔ یہ نہ صرف آپ کی جیت ہوگی، بلکہ پورے خطے کی۔
یہ تحریر ایک کال ہے جاگیں، سوچیں اور تبدیل کریں موروثی سیاست سے نکلنے میں آپکی عافیت ہے اپنے آپ سے سوال کریں کہ کیا ہم غلامی کے لئے پیدا ہوئے ہیں کیا ہمارے اندر لیڈر شپ کے جراثیم نہیں ہیں کیا ہم اقتدار کے اہل نہیں ہیں جب تک آپ اپنے آپ سے سوال نہیں کریں گے دوسرا اسکا مثبت جواب نہیں دے گا اپنے مردہ ضمیروں کو جگائیں اپنی سوچ کو وسیع کریں تاکہ تمہارے اندر آگے بڑھنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے یہ ہمارے موروثی سیاستدان رانگ نمبر ہیں دھوکہ ہیں فراڈ ہیں اب خدا را انکی بھٹی کا ایندھن نہ بنیں ہوش کے ناخن لیں۔

