Selab Afat Ya Hamari Mismanagement?
سیلاب آفت یا ہماری مس مینجمنٹ؟

سیلاب کو ہم ہمیشہ ایک قدرتی آفت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بلاشبہ بارش اور برف باری فطرت کے لازمی عناصر ہیں، لیکن جب یہ قدرتی عمل انسانی زندگیوں کو اجاڑ دیتا ہے، بستیاں بہا لے جاتا ہے اور زراعت کو تباہ کر دیتا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب صرف قدرت کا کیا دھرا ہے یا اس کے پیچھے ہماری بدانتظامی اور مس مینجمنٹ زیادہ بڑی حقیقت ہے؟
دراصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے فطرت کے اصولوں کو مسلسل چیلنج کیا۔ دریاؤں کے کناروں پر بستیاں بسا لینا، ندی نالوں کو تنگ راستوں میں قید کر دینا، پہاڑوں کے جنگلات کو بے دردی سے کاٹ دینا، یہ سب ہماری اپنی کارستانیاں ہیں۔ نکاسیٔ آب کا نظام ہو یا بندوں کی مضبوطی، ہر جگہ نااہلی اور کرپشن جھلکتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ معمولی بارش بھی بڑے شہروں کو جھیل میں بدل دیتی ہے اور شدید بارش پورے ملک کو قدرتی قید میں جکڑ دیتی ہے۔
سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہر سیلاب کے بعد "امدادی سیاست" شروع ہو جاتی ہے۔ حکمران فوٹو سیشن کراتے ہیں، بڑے بڑے اعلانات ہوتے ہیں، مگر عملی اقدامات ناپید ہوتے ہیں۔ متاثرین اپنے ٹوٹے گھروں اور بہے کھیتوں کو دیکھ کر آنسو بہاتے ہیں جبکہ حکومت کے وعدے فائلوں کی گرد میں دفن ہو جاتے ہیں۔
سیلاب دراصل ایک انتباہ ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر ہم نے فطرت کے راستوں کو کھلا نہ چھوڑا، اگر جنگلات کو بحال نہ کیا، اگر نکاسیٔ آب اور بندوں کے نظام کو بہتر نہ بنایا تو یہ آفات بار بار آئیں گی اور ہر بار ہم اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے قدرت کو موردِ الزام ٹھہراتے رہیں گے۔
گلگت بلتستان کو چاروں طرف سے سیلاب نے گھیر لیا ہے ہمارے ذمہ داران باہر ملکوں میں دل پشواری کرتے نظر آرہے ہیں جبکہ وزیر مشیر سب بیانات سے لوگوں کا دل بہلا رہے ہیں کارکردگی صفر ہے مراعات پوری قیادت کے اس فقدان کی وجہ سے نہ ہمیں آئینی حقوق ملے اور نہ ترقی کی راہ ہموار ہوئی بس ہر طرف لوٹ مار ہے اور بیانات ہیں اور ایک دوسرے پر الزامات ہیں عوامی شعور نہ ہونے کی وجہ سے یہ کرپٹ وزیر مشیر پارٹیاں بدل بدل انجوائے کر رہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ سیلاب محض ایک آفت نہیں، بلکہ ہمارے نظام کی ہمارے نمائیندوں کی نالائقی اور مس مینجمنٹ کا آئینہ ہے۔

