Saniha Babusar Gilgit Tareekh Ka Aik Siyah Baab
سانحہ بابوسر گلگت تاریخ کا ایک سیاہ باب

کہتے ہیں بابوسر کی ہوا ٹھنڈی ہے دل کو سکون دیتی ہے۔ مگر 16 اگست 2012 کی وہ ہوا خون کی بو سے بھری تھی پہاڑوں نے چیخ کر کہا کہ انسان اتنا سفاک کیسے ہو سکتا ہے؟ راستے میں کھڑی بسوں کو روکا گیا، شناخت پوچھی گئی اور شناخت کے نام پر گلے کاٹے گئے۔ کسی کو پتھروں سے مارا گیا کسی کی لاش مسخ کی گئی۔ یہ منظر ایسا تھا جیسے صدیوں بعد یزید کی فوجوں نے پہاڑوں کا راستہ ڈھونڈ لیا ہو۔
مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ کہانی اس وقت شروع ہوتی ہے جب ریاست خاموش رہتی ہے۔ قاتل دندناتے پھرتے ہیں اور مقتولوں کی تصویریں صرف تعزیوں پر سجتی ہیں۔ ایک طرف شہداء کے خاندان انصاف کے منتظر ہیں دوسری طرف حکمران ٹی وی پر بیانات کی مصلحتیں بیچتے ہیں۔ یہ وہی ریاست ہے جو بجلی کا بل نہ دینے پر شہری کے گھر کی لائن کاٹ دیتی ہے، مگر درجنوں انسانوں کے قتل پر لب سل لیتی ہے۔
کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ یہ ملک ایک بڑی کربلا ہے۔ ایک طرف ظالم ہیں، دوسری طرف مظلوم۔ ایک طرف طاقت ہے، دوسری طرف لاچاریاں اور بیچ میں بیٹھے ہم سب، جو اپنے گریبان کے بجائے دوسروں کے دامن تلاش کرتے ہیں۔ ہم نے ظلم کو قبول کر لیا ہے۔ ہم نے شہداء کے خون کو زمین میں جذب ہونے دیا ہے اور انصاف کی زبان پر قفل ڈال دیا ہے۔
بابوسر کا سانحہ فرقہ واریت کا حادثہ نہیں تھا، یہ ہماری اجتماعی بزدلی کا حادثہ تھا۔ ہماری خاموشی کا قتل تھا۔ ہماری آنکھوں پر بندھی پٹی کا نتیجہ تھا۔ ہم سب شریکِ جرم ہیں۔ جنہوں نے بسیں روکی تھیں وہ تو چند ہاتھ تھے، مگر جو دیکھتے رہے، جو خاموش رہے، وہ سب شریک تھے۔ یہ ظلم دور یزید کی بازگشت تھی، جہاں کربلا کی سرزمین پر پیاسے اہلِ بیتؑ کو شہید کیا گیا اور شہادت کے بعد بھی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی۔ بابوسر کا یہ واقعہ اسی ظلم و بربریت کی جدید شکل تھا، گویا کربلا ایک بار پھر زندہ کر دی گئی۔
اس واقعے کے بعد ریاستی اداروں کی خاموشی اور بے حسی ایک اور المیہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں، جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، وہاں لوگوں کو ان کے مسلک کی بنیاد پر کیوں مارا گیا؟ اور کیوں آج تک ایسے سانحات کے مجرم کھلے عام گھوم رہے ہیں؟ انصاف کا نہ ملنا ان شہداء کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
یہ سانحہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے معاشرے میں فرقہ واریت کا زہر کس حد تک سرایت کر چکا ہے۔ دشمن قوتیں اسی اختلاف کو استعمال کرتی ہیں تاکہ ہماری وحدت کو توڑ سکیں اور ہمیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر سکیں۔ بابوسر کا واقعہ ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ اگر ہم نے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا نہ کیا تو ہر دور میں کربلا دہراتی رہے گی۔
یہ 25 شہداء نہ صرف اپنے خانوادوں کے لیے، بلکہ پوری ملتِ اسلامیہ کے لیے ایک سوالیہ نشان ہیں۔ ان کی قربانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ہی اصل اسلام ہے۔ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم خاموش تماشائی بن کر ظلم کو سہتے رہیں گے یا شہداء کے لہو کی قسم کھا کر اس ملک کو فرقہ واریت اور دہشت گردی کے عفریت سے پاک کریں گے۔
سانحہ بابوسر گلگت ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جو ہمیں دکھاتا ہے کہ اگر ہم نے عدل، انصاف اور اتحاد کی راہ نہ اپنائی تو یہ زخم بڑھتے رہیں گے۔ یہ شہداء یاد دلاتے ہیں کہ کربلا ہر دور میں مختلف شکلوں میں زندہ ہے اور حسینیت کا پیغام آج بھی وہی ہے
ظلم کے سامنے ڈٹ جانا اور حق کی خاطر قربانی دینا۔

