Safeer e Aman Qazi Nisar Sahab
سفیر امن قاضی نثار صاحب

گلگت، بلتستان کا امن ہمیشہ سے ڈگمگاتا رہا ہے یہاں ہر وقت بے یقینی اور بے چینی کی فضا رہی چھوٹی سی بات کو رائی کا پہاڑ بنانے میں دیر نہ لگتی لیکن آخر میں نتیجہ وہی نکلتا کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا گزشتہ تین دہائیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ چھوٹے بڑے واقعات ہوتے رہے، لیکن نہ عوام نے شعور دکھایا اور نہ ہی خواص نے حالات بہتر کرنے کی کوشش کی۔ ہر ایک نے اپنی ناعاقبت اندیشی سے فضا کو مزید خراب کیا۔ یہ گندگی ایک نہ ختم ہونے والے دائرے میں گھومتی رہی ہے باہر سے امن نظر آتا لیکن اندر سے بے چینی کی لہریں جیسے سمندر کی لہروں کی طرح شور مچاتے ہوئے ہر طرف پھیلتی رہیں۔
عوام سوچ بدلتی ہے تو پھر ایک مذہبی ملا اس سوچ کو وہی پرانی طرز شرپسندی سے پھر اسی طرف راغب کرتا ہے زہریلی اور تعصب سے بھر پور تقریروں سے زہر اگل کر مزید تعصب کا شرر گھولا جاتا ہے جبکہ وہی ملا کبھی اپنی تقریر میں سیرت نبی پر بھی درس دیتا نظر آتا ہے یوں تو مطالعہ سیرت نبی سب کرتے ہیں مگر عمل میں سب زیرو ہیں کردار میں میں سب نل بٹا نل ہیں تو ہم سبکو اپنے اپنے گریبانوں میں جھا کنا ہوگا کہ ہم کس نبی کی امت ہیں۔
ہمارے نبی نے تو در گزر محبت رواداری اور امن کا درس دیا ہے لیکن ہم پیروکار کہیں بھی اس پر عمل کرتے نظر نہیں آتے یہ تضاد کیوں ہے مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ رسول کو مانتے تو ہیں مگر انکی ایک نہیں مانتے یہی طرز زندگی ہمیں جہالت کیطرف لے جاتی ہے آج ہر طرف بے راہ روی، شرپسندی تعصب ہماری بے عملی کا نتیجہ ہے۔
5 اکتوبر کو حالات نے خطرناک موڑ لیا۔ گلگت-بلتستان کی ایک اہم شخصیت پر دن دہاڑے دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ دہشت گرد ناکام ہوکر بھاگ گئے لیکن اس واقعے نے ایک بار پھر گلگت-بلتستان کو بدامنی کی آگ میں دھکیل دیا۔ عوام کو لگا کہ ان کی محنت سے بنائی گئی امن کی فضا تباہ ہو جائے گی۔ ایک بار پھر لاشیں بکھریں گی خوف کے سائے چھا جائیں گے اور زندگی مفلوج ہو جائے گی۔ لیکن جس شخصیت پر حملہ ہوا وہ کوئی عام آدمی نہیں تھے۔ لوگ انہیں استاد کہتے ہیں۔ ان کا ایک اشارہ گلگت-بلتستان کو بدامنی کی طرف دھکیل سکتا تھا۔ لیکن انہوں نے اپنی جان اور انتقام سے زیادہ امن کو ترجیح دی۔ انہوں نے اپنے چاہنے والوں کو صبر اور بھائی چارے کی تلقین کی۔ جی ہاں، یہ ہیں محترم جناب غازی قاضی نثار احمد صاحب جن پر دو دنوں میں متعدد کالمز لکھے جا چکے ہیں۔ قاضی صاحب کا اس صورتحال میں اپنی قوم سے امن اور صبر کی تلقین قابل تحسین ہے۔
کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ انہوں نے اپنا کردار ادا کیا اور اب ذمہ داری ان کے چاہنے والوں پر تھی۔ حیرت کی بات ہے کہ غم اور غصے کے باوجود ان کے چاہنے والوں نے صبر کا دامن تھاما اور امن کو فروغ دیا۔
لیکن اصل کہانی اب شروع ہوتی ہے۔ سیکیورٹی ادارے ہمیشہ شکایت کرتے ہیں کہ عوام اور علماء ان کا ساتھ نہیں دیتے۔ ماضی میں یہ سچ بھی رہا لیکن اس بار عوام اور علماء سب مل کر ساتھ دے رہے ہیں۔ چاہے وہ جعفری ہوں، حنفی ہوں یا اسماعیلی، سب ایک زبان ہو کر دہشت گردوں کو بے نقاب کرنا چاہتے ہیں اور پولیس گلگت-بلتستان کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔ اب یہ کیس ایک امتحان ہے جسے انتہائی احتیاط سے حل کرنا ہوگا۔ سب کی نظریں آئی جی پی سے زیادہ ڈی آئی جی جناب مرزہ حسن پر ہیں جو ایک ایماندار اور قابل افسر ہیں۔ وہ ماضی میں بھی ایسے کیسز میں خود کو منوا چکے ہیں۔ اگر یہ کیس حل نہ ہوا تو عوام جانتے ہیں کہ ذمہ داری کس پر عائد ہوگی۔ اگر پولیس کو کوئی مسائل ہیں تو وہ اپنی ناکامی کا رونا روئے یا کسی پر الزام لگانے کی بجائے مدد مانگے، تاکہ یہ خطہ پرامن رہے۔ سی سی کیمرے کا بند ہونا یہ بھی سوالیہ نشان ہے۔
استاد محترم نے جو اعلیٰ ظرفی دکھائی وہ گلگت-بلتستان کی تاریخ میں کوئی دوسرا دہرا نہیں سکتا۔ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر امن اور صبر کا پیغام دینا کوئی ولی ہی کر سکتا ہے۔ آدھا کیس تو انہوں نے صبر سے حل کر دیا۔ اب پولیس کو بس مجرموں تک پہنچنا ہے۔ اگر پولیس نے کوتاہی کی تو وقت معاف نہیں کرے گا۔ اس لیے پولیس کو چاہیے کہ اس کیس کو سنجیدگی سے لے اور جلد از جلد پیش رفت دکھائے۔ ہم اس نازک صورتحال پر امن اور صبر کا پیغام دینے پر قاضی نثار احمد کو دونوں ہاتھوں سے سلام پیش کرتے ہیں باقی تمام مسالک کے علمائے کرام کو قاضی صاحب کی اس طرز عمل سے سیکھنے کی ضرورت ہے اللہ ایسے علماء کو لمبی زندگی عطا فرمائے۔

