Quaid Ki Mout Tabi Hargiz Nahi Thi
قائد کی موت طبعی ہر گز نہیں تھی

قائد اعظم محمد علی جناح، پاکستان کے بانی، 25 دسمبر 1876 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ جناح نے ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی اور 1893 میں بیرسٹری کی ڈگری کے لیے لندن کے لنکنز اِن میں داخلہ لیا۔ 1896 میں وطن واپسی پر انہوں نے بمبئی ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی اور جلد ہی برصغیر کے ممتاز وکلا میں شمار ہونے لگے۔
جناح نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز آل انڈیا نیشنل کانگریس سے کیا اور ہندو-مسلم اتحاد کے لیے کام کیا، جس کا ثبوت 1916 کا میثاقِ لکھنؤ ہے۔ تاہم، کانگریس کی ہندو نواز پالیسیوں سے مایوس ہوکر وہ 1920 میں اس سے الگ ہوگئے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی۔ 1940 میں قراردادِ پاکستان کی منظوری نے ان کی جدوجہد کو نئی جہت دی، جس کے نتیجے میں 14 اگست 1947 کو پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ جناح پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے اور انہوں نے نئے ملک کی بنیادیں مضبوط کرنے کے لیے انتھک محنت کی۔
ان کی زندگی نظم و ضبط، دیانتداری اور اصول پسندی کا نمونہ تھی۔ وہ ایک ایسی قیادت تھے جنہوں نے ناممکن کو ممکن بنایا اور برصغیر کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ وطن دیا۔ تاہم، ان کی صحت 58 سال کی عمر سے خراب رہنے لگی اور وہ طویل بیماری کو چھپاتے ہوئے قوم کی خدمت کرتے رہے۔
11 ستمبر 1948 آج 11 ستمبر، قائد اعظم کے یومِ وفات کا دن ہے۔ 1948 میں شدید علالت کے باعث وہ کوئٹہ سے زیارت منتقل ہوئے، جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دو ماہ گزارے۔ 11 ستمبر 1948 کی رات 10: 25 پر کراچی میں حرکتِ قلب بند ہونے سے وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ ان کی وفات کی خبر نے پوری قوم کو سوگوار کردیا۔ ان کے جنازے میں لاکھوں افراد شریک ہوئے اور ان کی تدفین کراچی میں موجودہ مزارِ قائد کے مقام پر ہوئی، جہاں مولانا شبیر احمد عثمانی نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ یہ ابتدائی حالات زندگی ہیں مگر کچھ حقائق کو چھپایا گیا اس وقت کے طاقتوروں نے۔
قائداعظم محمد علی جناح کی زندگی کا سب سے کٹھن باب آزادی کے بعد شروع ہوتا ہے۔ برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کی جدوجہد کا نتیجہ پاکستان کی صورت میں سامنے آیا، لیکن یہ نوزائیدہ ریاست بے شمار مسائل کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی۔ لاکھوں مہاجرین کی آبادکاری، وسائل کی کمی، مالی مشکلات، دشمن کی سازشیں اور اندرونی اختلافات جیسے چیلنجز قائداعظم کے سامنے تھے۔ وہ ان سب کا مقابلہ بھرپور عزم کے ساتھ کر رہے تھے، مگر سب سے بڑا دکھ انہیں اپنے ہی قریبی رفقاء کے رویے اور اپنوں کی بے حسی سے پہنچا۔
قائداعظم کی بیماری چھپی نہ رہی مگر بجائے ان کے علاج اور آرام کو یقینی بنانے کے بعض طاقتور حلقوں نے ان کے مسائل کو نظر انداز کیا۔ تاریخ کا وہ سیاہ لمحہ ناقابل فراموش ہے جب 11 ستمبر 1948 کو کراچی سے کوئٹہ جاتے ہوئے بیمار قائداعظم کی ایمبولینس کا ٹائر پنکچر ہوا۔ گھنٹوں وہ سڑک کے کنارے پڑے رہے اور بروقت طبی امداد نہ مل سکی۔ دنیا حیران رہ گئی کہ جس شخصیت نے ایک ملک بنایا، اس کو اپنے ہی ملک میں ہسپتال تک پہنچانے میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارے اصل رہنما کو دشمنوں نے نہیں اپنوں کی غفلت اور سازشوں نے تنہا کر دیا۔ قائداعظم کی جدوجہد اور قربانیوں کا حق ہم آج بھی ادا نہیں کر سکے۔ ان کے خواب کا پاکستان ابھی بھی ہمارے کردار کا منتظر ہے۔
آج بھی پاکستان کی تاریخ ایک مسلسل پنکچر ایمبولینس کی کہانی ہے۔ قائد کی ایمبولینس پنکچر تھی، جمہوریت کی گاڑی پنکچر ہے، انصاف کا نظام پنکچر ہے اور قوم کے صبر کا پہیہ بھی اب پنکچر ہونے کے قریب ہے۔ سوال یہ ہے کہ کب تک ہم ان ظالموں، گدھوں کو سلامی دیتے رہیں گے؟ کب تک ہم ان کے جھوٹے قصیدے پڑھتے رہیں گے؟ کب تک ہم ان کے جرائم پر پردہ ڈالیں گے؟
اگر ہم نے آج بھی نہ پہچانا تو آنے والی نسلیں ہمیں بھی اُسی قطار میں کھڑا کریں گی جس میں آج ہم اپنے نامعلوم دشمنوں کو دیکھ کر کڑھتے ہیں۔ قائد کا المیہ یہ تھا کہ اُنہیں دشمن باہر سے نہیں، بلکہ اپنے ہی لوگوں میں سے ملا اور یہی ہمارا المیہ بھی ہے۔
اصل سوال یہ نہیں کہ قائداعظم کی ایمبولینس کا ٹائر کس نے پنکچر کیا تھا اصل سوال یہ ہے کہ آج بھی پورا ملک ایک پنکچر ایمبولینس پر چل رہا ہے جو ہچکولے کھا کر کبھی محفوظ ہاتھوں کی طرف بڑھتی ہے اور کبھی کسی نامعلوم کھڈے میں جا گرتی ہے حالات بتا رہے ہیں پوری قوم عذاب کی طرف گامزن ہے اور ملک تباہی کے دہانے کھڑا واضع نظر آرہا ہے مگر لٹیرے سب ٹھیک ہے کہہ کر مطمئن ہیں ایک اہم واقعہ جس سے ہر کوئی واقف نہیں وہ یہ کہ قیام پاکستان کے بعد قائدِ اعظم بیرسٹر میاں عبدالعزیز مالواڈہ کے گھر ایک تقریب میں شامل ہوئے بیرسٹر میاں عبد العزیز نے قائدِ اعظم کی گرتی ہوئی صحت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سر اپنی صحت کا خیال رکھیں اور اپنی حکومت میں ایسے لوگ رکھیں جو با اعتماد، لائق اور ایماندار ہوں۔ میاں عبدالعزیز کی بات سن کر قائدِ اعظم نے فرمایا
"I have to do all work, what am I to do with these spurious coins in my pocket. "
"میری جیب میں جو کھوٹے سکے ہیں میں ان کا کیا کروں"۔
پھر زمانے نے دیکھا کہ کس طرح ان کھوٹے سکوں نے اس مردِ باصفا کو وقت سے پہلے مار دیا - قائد کی موت طبعی ہر گز نہیں تھی، یہ کھوٹے سکے ہمارے ہاں آج بھی کثرت میں موجود ہیں۔ خدا معلوم یہ دھرتی کب ان کے بوجھ سے آزاد ہوگی۔

