Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Parliament Ki Ahmiyat Khatam Ya Wizarat Ka Khwab Adhoora?

Parliament Ki Ahmiyat Khatam Ya Wizarat Ka Khwab Adhoora?

پارلیمنٹ کی اہمیت ختم یا وزارت کا خواب ادھورا؟

مولانا فضل الرحمان ایک بار پھر سرخیاں بٹور رہے ہیں اور وجہ وہی پرانی ہے اقتدار کی کرسی کا ہاتھ سے نکل جانا۔ کل تک یہی مولانا صاحب پارلیمنٹ کے تقدس پر خطبے دیتے نہ تھکتے تھے لیکن جیسے ہی وزارت کے دروازے بند ہوئے اچانک پارلیمنٹ بے معنی" اور غیر شرعی" ہوگئی۔ سبحان اللہ! یہ ہے وہ سیاست جو اقتدار کے دسترخوان پر بیٹھ کر جمہوریت کی تعریف کرتی ہے لیکن جب سالن سے گوشت کا ٹکڑا غائب ہو جائے تو پورا نظام ہی حرام ٹھہرتا ہے یہ اصولی سیاست نہیں منافقت اور مفاد کی سیاست ہے۔

مولانا فضل الرحمان کی سیاسی زندگی کا محور ہمیشہ اقتدار رہا ہے جب وہ اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہوتے ہیں تب نظام درست جمہوریت معتبر اور پارلیمنٹ مقدس لگتی ہے۔ لیکن جیسے ہی کرسی ہاتھ سے نکلتی ہے ان کی زبان سے وہی نظام اور ادارے تنقید کی زد میں آ جاتے ہیں۔ یہ وہی رہنما ہیں جو ہر دور میں کسی نہ کسی حکومت کا حصہ رہ کر قوم کو دین کے نام پر خواب دکھاتے رہے، مگر عمل میں ہمیشہ اپنے قبیلے اور گھرانے کے لیے مراعات کا بندوبست کرتے رہے۔

ابھی اگر ان کے بھائی یا بھانجے کو کسی وزارت یا گورنری کی کرسی مل جاتی تو یقیناً مولانا صاحب کی زبان سے یہی الفاظ نکلتے یہ پارلیمنٹ اسلام کی ترجمان ہے جمہوریت کی جیت ہے لیکن جب ان کی توقعات پر پانی پھر گیا اور خیبر پختونخوا کی وزارتِ اعلیٰ کی کرسی ان کے بھائی کے ہاتھ نہ آئی تو پارلیمنٹ یکدم ان کے لیے بے وقعت ہوگئی غیر آئینی ہوگئی یہ سیاست نہیں بلکہ منافقت ہے

یہ حقیقت ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے دین کے نام پر اپنی پوری سیاسی زندگی ذاتی مفادات کے گرد گھومتی رکھی۔ سود کی شرح جب 14 فیصد سے بڑھ کر 22 فیصد ہوئی، تب ان کی زبان سے اس کے خلاف ایک لفظ نہ نکلا۔ ہر آنے والی حکومت سے انہوں نے اپنا حصہ وصول کیا اور عیاشی کی زندگی گزاری۔ لیکن جب اقتدار کی یہ بازی ان کے ہاتھ سے نکل گئی تو وہ پارلیمنٹ کو غیر شرعی اور "فرسودہ" قرار دینے لگے اور اسٹیبلشمنٹ پر بھی چڑھائی کر بیٹھے میرے نزدیک یہ اسٹیبلشمنٹ کے لئے ہمیشہ راہموار کرتے آئے ہین یہ کوئی اسلام کی خدمت نہیں بلکہ صاف صاف منافقت ہے۔

قوم کو اب سوچنا ہوگا کہ آخر کب تک ہم ان سیاسی علما کے فریب میں آتے رہیں گے کب تک وہ مذہب کو اپنی جاگیر اور اسلام کو سیاسی ہتھیار بناتے رہیں گے؟ پاکستانی عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ مذہب ایک پاکیزہ چیز ہے لیکن اسے اقتدار کے لیے آلہ کار بنانا سراسر زیادتی ہے اسلام کے لئے کوئی ایک خدمت انکی نظر نہیں آتی سوائے اپنے بھائی اور بیٹوں کے لئے وزارتوں کے۔

پارلیمنٹ کی اہمیت ختم نہیں ہوئی مولانا صاحب! ختم ہوئی ہے تو بس آپ کی کرسی کی اہمیت اور شاید یہی بات آپ سے برداشت نہیں ہو رہی۔ یہ وقت ہے کہ آپ اپنی سیاسی حکمت عملی پر نظرثانی کریں اور دین کو ذاتی مفادات سے الگ رکھیں۔ پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ اسے تنقید کا نشانہ بنانے کی یہ ادارہ جمہوریت کا ستون ہے اور اس کی اہمیت کو ذاتی ناکامیوں سے جوڑنا سراسر ناانصافی ہے۔ عوام کو بھی اب جاگنا ہوگا۔ ہمیں ان رہنماؤں سے سوال پوچھنا ہوگا جو مذہب کے نام پر ووٹ مانگتے ہیں، لیکن عمل میں صرف اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ پاکستانی سیاست کو صاف اور شفاف کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم منافقت کے اس لبادے کو اتار پھینکیں اور سچائی کو اپنائیں۔

پاکستانی سیاست کی پیچیدہ اور پرآشوب راہ میں مولانا فضل الرحمان ایک ایسے رہنما ہیں جو چالیس سال سے زائد عرصے سے اس میدان میں موجود ہیں۔ بات یہ موصوف اسلام کی کرتے ہیں مگر دماغ اسلام آباد کے لئے فکر مند رہتا ہے انکی چالیس سالہ سیاسی زندگی اسلام کے نام پر منافقت کرتے گزری ہے یہ اسلام کے لئے کبھی مخلص نہیں رہے اگر مخلص رہے تو اپنی وزارت کے لئے اسلام آباد کے بنگلے کے لئے۔

میرے نزدیک یہ ایک رانگ نمبر ہے بینظیر کے دور میں جب اسکو حصہ نہیں ملا تو عورت کی حکمرانی غیر شرعی اور حرام ٹھہری جوں دو چار سیٹیں ملی وہی غیر شرعی عورت کی حکمرانی عین حلال ٹھہری۔ ابھی بھی انکی جو بھڑکیں ہیں وہ اپنے بھائی کو سی ایم نہ بننے کی غصے کی نشاندہی یعنی عکاسی کر رہی ہے یقیناََ اب اس کے متبادل اندرون خانہ کچھ نوازشات ہوگی پھر یہ موصوف چار گلاس لسی پی کر ٹھنڈے ہوجائین گے اور حسب معمول کیطرح سب ٹھیک کا منظر دیکھنے کو ملے گا یہ وقتی غم غصہ کرسی نہ ملنے کا ہے عوام پریشان نہ ہوجائیں۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari