Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Nanha Sheraz Shohrat Se Khidmat Tak

Nanha Sheraz Shohrat Se Khidmat Tak

ننھا شیراز شہرت سے خدمت تک

یہ دنیا کتنی عجیب ہے۔ کہیں بڑے بڑے صاحبِ اقتدار برسوں کے منصوبوں اور اربوں کے فنڈز کے باوجود بھی ایک بوسیدہ دیوار سیدھی نہیں کر پاتے اور کہیں ایک ننھا سا بچہ شہرت کی جھلمل روشنیوں کو خدمت کے چراغ میں ڈھال کر پوری وادی کو روشن کر دیتا ہے۔ ضلع گانچھے کے ایک گوشہ گمنام گاؤں غورسے، سے اٹھنے والا یہ ننھا چراغ شیراز محض ایک اتفاق نہیں، بلکہ ہمارے اجتماعی شعور پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ قومی میڈیا سے لے کر بین الاقوامی نشریاتی اداروں تک اس کی معصوم مسکراہٹ موضوعِ گفتگو بنی۔ ملاقاتیں ہوئیں، کیمرے جھکے، شہرت کے دروازے کھلے۔ عام طور پر یہاں سے آگے کہانی بدل جاتی ہے۔ شہرت نقدی میں ڈھلتی ہے، تعلقات ٹھیکے بن جاتے ہیں اور نام نمود کے اس کھیل میں انسان کھو جاتا ہے۔ مگر شیراز اور اس کے والد تقی نے یہ راہ نہ چنی۔

یہ پہلا واقعہ ہے کہ شہرت نے لقمہِ تر بننے کے بجائے روٹی کے نوالے تقسیم کیے۔ یہ لوگ نام کمانے کے بجائے لوگوں کے زخم سہلانے نکلے۔ بے گھروں کو چھتیں ملیں، یتیموں کو سہارا ملا، بچوں کے لئے ایک اسکول کی بنیاد رکھی گئی، مریضوں کے لئے ایمبولینس کا پہیہ گھوما اور وہ خوفناک دریائی کٹاؤ جس کے سامنے نمائندے اور ادارے برسوں ہاتھ باندھے کھڑے رہے تھے، اس کے آگے بھی ایک دیوارِ عزم کھڑی کی گئی۔

یہ سب کیسے ہوا؟ کیا شہرت میں اتنی طاقت ہے؟ نہیں۔ طاقت شہرت میں نہیں، نیت میں تھی۔ وہ نیت جو خالص ہو تو پہاڑوں سے پانی نکل آتا ہے اور دلوں کے کنویں لبریز ہو جاتے ہیں۔ غورسے کے لوگ برسوں سے نمائندوں کے وعدے سنتے آئے ہیں۔ کبھی بجٹ کا حوالہ، کبھی وسائل کی کمی، کبھی پراجیکٹ فائلوں۔ کا بہانہ مگر جو کچھ ان باپ بیٹوں نے دو سال میں کر دکھایا، وہ پچاس سال کی نمائندگی نہ کر سکی۔ اس سے بڑا طنز ہمارے جمہوری و حکومتی نظام پر اور کیا ہوگا؟

شیراز نے ہمیں یہ بتایا کہ خدمت کے لئے کرسی نہیں چاہیے، تخت نہیں چاہیے، وزارت نہیں چاہیے۔ بس ایک سچا دل چاہیے جو دوسروں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھے۔ وہ دل جسے خدا کے قریب ہونے کا ہنر آتا ہو۔ ننھا شیراز اب ہمارے لئے محض ایک بچہ نہیں رہا۔ وہ ایک علامت ہے اس بات کی علامت کہ اگر نیت صاف ہو تو چھوٹے بھی بڑے ہو جاتے ہیں اور بڑے اکثر اپنی چھوٹی سوچ میں سمٹ جاتے ہیں۔

خدا اس معصوم چراغ کی روشنی کو بجھنے نہ دے اور تقی جیسے باپوں کو سلامت رکھے جو اپنے بچوں کو شہرت کی نہیں، خدمت کی راہ دکھاتے ہیں۔ خدا اس معصوم ننھے شیراز کے چراغ کی روشنی کو بجھنے نہ دے اور تقی جیسے باپوں کو سلامت رکھے جو اپنے بچوں کو شہرت کی نہیں، خدمت کی راہ دکھاتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ محض توفیق کی بات ہے۔ اللہ جسے چاہے خدمت کا ذریعہ بنا دے اور جسے چاہے شاہی محلات میں بٹھا کر بھی رسوا کر دے۔ غورسے کی مٹی سے اٹھنے والا یہ ننھا چراغ خدمت کی راہ دکھا گیا، مگر اسلام آباد اور لاہور کے سنگِ مرمر کے محلوں میں بیٹھے بلاول اور مریم آج بھی کوئی ڈھنگ کا کام نہ کر سکے۔ ان کے حصے میں صرف یہ آیا کہ اپنے بڑوں کی کرپشن کا دفاع کریں اور قومی دولت کے کچرے میں سے اپنے لئے ہیرے تلاش کرتے پھریں۔

یہ وہ وارثانِ اقتدار ہیں جن کے لئے سیاست ایک کاروبار ہے، عوام ایک ہجوم ہے اور ملک ایک چراگاہ۔ جس طرح باپ دادا نے لوٹا، اسی پر فخر کرتے ہیں اور اسی کو اپنا ورثہ سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پروٹوکول کے قافلے ہی اصل عزت ہیں، ایوانوں کے شور و شرابے ہی اصل شہرت ہیں اور ٹی وی کی اسکرین پر جگمگاتے نعرے ہی اصل خدمت ہیں۔ مگر غورسے کا ننھا شیراز ان کے چہروں پر آئینہ رکھتا ہے۔ ایک طرف اقتدار کے پہاڑ ہیں جو کچھ نہیں کر پاتے، دوسری طرف ایک معصوم بچہ ہے جو شہرت کو خدمت میں بدل کر دکھا دیتا ہے۔ فرق صرف نیت اور اخلاص کا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ لوگ دنیا میں نام کمانے کے چکر میں اپنی آخرت کو بھول جاتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ یہ چند دنوں کی رنگین زندگی ہی سب کچھ ہے، مگر اصل امتحان تو اس دن ہے جب سانسیں اکھڑ جائیں گی۔ وہاں پروٹوکول نہیں ہوگا، وہاں ججز نہیں خریدے جائیں گے، وہاں میڈیا کے کیمرے نہیں ہوں گے۔ وہاں صرف اعمال کا آئینہ ہوگا اور اس میں دکھائی دینے والے چہرے پر ندامت کے سوا کچھ باقی نہیں بچے گا۔ ابھی وقت ہے، سانس باقی ہے، ورنہ آنے والا وقت اتنا بے رحم ہے کہ نہ بلاول کو مہلت دے گا، نہ مریم کو، نہ ان جیسے وارثانِ اقتدار کو۔ وہاں بس یہی پرکھا جائے گا کہ تم نے اپنے حصے کی شہرت کو خدمت میں بدلا یا صرف اپنی کرسی کے لئے بیچا۔ یہاں کردار ناپا جائے گا شہرت نہیں۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan